پارٹ ١ ( رسول اللہ صلم کی ولادت با سعادت )

عرب

وجعلنا کم شعو با و قبانل  الخ ( سورہ الحجرات ١٣ ) اور تم کو تقسیم کیا ہے قوموں اور قبائل میں . نسب کا انتہائی بالایی  حصّہ  شعب  اور شعو ب  کہلاتا ہے پھر قبیلہ پھر فخذ پھر فصیلہ پھر عشیرہ .

اسماعیل علیہ السلام پورے عرب  کے مورث  اعلی  اور جد امجد ہیں .اور یہ عرب مستعربہ ہے جو حجاز میں آباد ہے .اور یہاں عرب عاربہ جیسے عاد، ثمود ، طسم ،جدیس. امیم ،جرہم، عمالقہ اور دیگر اقوام بھی موجود تھی

 ارب تین قبایل پر منقسم ہے.

 ١.عدنانی(عدنان اور اسماعیل کے درمیان تیس بشتوں کا فاصلہ اسکے بعد آپ صلم کا نسب نامہ )،

٢. قحطانی(حمیری – یمنی ارب یعنی مہزم  )  اور

٣. قضا عہ

( یمنی ارب قحطا ن ، قبیلہ  خزعہ (قبیلہ سبا کی ایک شاخ جو سیلاب برپا ہونے پر جدا ہوئے تھے . بدترین متولی اور بت پرست انہی کی ایک شاخ  قبیلہ اوس و خزرج ہے  )  ، سبا  (سورہ سبا 18 تا  ١٩ ) ان سب قبایل کا جدامجد انہی سے ملوک یمن "تبا بعہ " تھے .

( نوٹ :یمن کے بادشاہ کو" تبع" ، ملک شام کے" قیصر" ،فارس کے بادشاہ کو "کسری" اور مصر کے شاہ کو "فرعون" کہتے ہے حبشہ کے حکمران کا لقب "نجاشی" ہوتا ہے .) ( تاریخ ابن کثیر حصہ  دوم صفہ 618  ) (تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٢٨٦ )

مکہ میں قریش کی حکومت : ( آل  عدنان )(تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٣٤٦  )

بہت پہلے حجاز اور اس پاس کے علاقوں میں عمالقہ ( عملیق بن لاوز  کی اولاد )  پھیلے  ہوے تھے اور وہی حاکم تھے ، جرہم بھی یقطن بن شلیخ کی اولاد تھے، یمن میں قحط کی وجہ سے پانی چارہ کی تلاش میں قبیلہ  (قحطانی ) جرہم تہامہ آے جو حضرت اسماعیل اور حضرت حاجرہ سے زمزم کے کنوے پاس ملے ، اور سب یہی بس گئے ، حضرت اسماعیل  نے جرہم کے اندر پرورش پایی ،انہی کی عربی  زبان اختیار کی اور شادی کرلی تھی ، ( حضرت اسحاق  کی ولادت کے بعد اللہ نے بیت اللہ بنانے کا حکم  دیا اس سے پہلے جب حضرت اسماعیل  پندرہ سال کے ہوچکے تھے تو حضرت ہاجرہ کا انتقال ہو گیا تھا تجہیز و تکفین کے بعد حضرت اسماعیل کا دل مکہ سے اچٹ  گیا اور انہونے شام جانے کا ارادہ کرلیا لیکن بنو جرہم کے آپس میں مشوورے سے  وہ  روک گئے اور ان کا نکاح عمارہ بنت سعید بن اسامہ بن اکیل سے خاندان عمالقہ میں کردیا ، اسکے بعد حضرت ابراھیم  مکہ  آنے حضرت اسماعیل شکار کرنے گئے تھے ، گھر پر بہو  تھی ، آپ نے پوچھا  کون ہو،اسماعیل کہا گئے ہاجرہ کا کب انتقال ہوا ،عمارہ  کی ترش روئی  جواب   اور بداخلاقی سے حضرت ابراہیم روانگی کے وقت  کہے گئے " اسماعیل  آنے تو کہہ دینا کہ اپنے گھر کی  چوکھٹ تبدیل کر دو " تو حضرت اسماعیل کو عمارہ نے تمام واقعہ  بیان کیا  تو آپ نے کہا وہ  میرے والد تھے اور تمہیں طلاق دینے کا فرما گئے اس لئے میں اب تم سے علیحدگی اختیار کرتا ہوں، اسکے بعد آپ نے سیدہ  بنت مضاض بن عمرو جرا سے نکاح کیا ، ایک عرصہ  کے بعد حضرت ابراہیم تیسری مرتبہ سارہ سے اجازت لیکر اسماعیل کو دیکھنے   آنے اور  اس دن اتفاق سے حضرت اسماعیل نہیں تھے  سیدہ بنت مضاض  نے  آپ  کا احترام کیا ، وضو گرم پانی دیا، دودھ گوشت پیش کیا  آپ بہت خوش ہوئے، رخصتی  پر  شوہر کو سلام کہنے کو کہا،  ماجرہ  سنایا  آپ بہت خوش ہوئے ( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٥٥  )) ( سورہ حدید ٢٦ )،پھر  بیت الله کی تعمیر کی(سورہ حج ٢٦ )  ،نابت بنت اسماعیل متولی  کعبہ ،خزاعہ متولی  کعبہ ،  بنی کنانہ ( قریش ) بنی لونی بن غالب ( سردار قصی بن کلاب اور بیت الله کے انتظامات پر قبضہ، دا رلندوہ   )،عبد مناف (مغیرہ ) ،ہاشم، عبدالمطلب ( شبیہ بن ہاشم ) ، زمزم کے کنوے کھودنے کا خواب،اور قریش کا انکار، بیٹے عبدا للہ کی قربانی کی منت ،حضرت عبدالله اور آمنہ بنت وہب کی شادی ، حضرت عبدالله کاکھجور لانے مدینہ  سفر میں اچانک انتقال،  زمزم کی دوبارہ کھدائی ،کعبه میں پہلی مرتبہ غلاف تبع حمیری  نے   چڑھا یا ، (تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٣٥٤) حلف الفضول معا ندہ  ، خاتم الا نبیا کی آمد کی پیشن گوئی اور عرب رنیسوں کی نبوت کی تلاش ،بتوں کی عبادت ( ہبل ، ود ، سوا ع ، یغوث ،یعوق ، نسر ،لات ، مناف ،دوار ، اساف ، نائلہ ،عجب ،مشہور لوگوں کے بت ،کعبہ  کے اندر حضرت ابراہیم. حضرت عیسیٰ   اور حضرت مریم کی تصویر،کعبہ  کا حج ، بتوں کو قربانی  )  ستارہ  پرستی ،کہانت ، فال  کھولنا ،شاعری ،  لا مذہبیت ، صابی مذھب ،یہودیت کی عرب میں آمد،عیسا ہیت کی آمد،ولادت با سعادت ، رضاعت حلیمہ بنت ابی زونب عبدالله شوہر حارث بن عبد العزی  ( دودھ پلانے والی دایہ )، واقعہ شق صدر( فرشتوں کا دل صاف کرنا)  ،    آٹھ سال کی عمر میں دادا عبدالمطلب ( عمر ١٤٠ سال ) کا انتقال ، چچا ابو طالب کی کفالت میں، سفر شام.............جاری .،(تاریخ ابن خلدون جلد سوم صفہ ٤٧ )

ابرہہ اشرم (عیسا نی)  نے صعنا (یمن ) میں ایک بے مثال "قلیس " نامی کلیسا تعمیر کیا تاکہ عربوں کا حج کلیسا کی طرف موڈ سکے ،  لیکن ایک عرب کنانی نے اندر پاخانہ کردیا ، جس کا غصہ  کعبه پر حملہ کرنے کا ہوا ، ماہ محرم ٥٧١ عہ اعلان  جنگ اور ساٹھ ہزار کے لشکر جرار سے ہوئی .  اسکے ایک فوجی دستہ نے قریش ( مشرک)  میں عبد المطلب بن ہاشم  (اپنی قوم کے ریس اور سردار )  کے بھی دو سو اونٹ لوٹ لئے ، یہ خبر سن  کر آپ ابرہہ کے پاس گئے اور اونٹوں  کا مطالبہ کیا اور کہا کے " میں تو صرف اونٹوں کا مالک  ہوں اور الله کعبه کا رب ہے وہ  خود ہی اسکی حفاظت کریگا."  بعد میں الله سے دعا کی ، جب ابرہہ کا لشکر کعبه کی طرف بڑھا تو الله نے چڑیوں جیسے پرندے کنکر اٹھا ے  بھیج دے ( ابابیل کا معنی  پرندوں کے متفرق گروہ جو پے درپے مختلف سمتوں سے اے )، جو جس پر گرتا ہلاک ہوجاتا ، ابرہہ بھی صعنا پہنچتے پہنچتے پگھل کر مر گیا . الله تعالی کی مشیت  یہ تھی کہ کعبه کی تعظیم و تکریم میں رسول الله کی بعثت سے اضافہ کرے  اور دین  کے اہم ستون نماز کا قبلہ اسی کعبه کو قرار دے . ( تاریخ ابن کثیر حصہ  دوم صفہ ٦٢٧ )

زمانہ جاہلیت کی شہرہ آفاق شخصیات :

خالد بن سنان عبسی ، فیاضی  کرنے والا  حاتم طائ ( ابو سفانہ حاتم طائ بن عبداللہ )، فیاضی کرنے والا  عبداللہ بن جدعان ، شاعر امرو القیس ، شاعر امیہ بن ابی الصلت ثقفی ،بحیرا  راہب ، قیس بن سا عدہ ایادی  ،جارود  بن معلی لاٹ پادری کتب سماوی کا عالم (ایران) ،موحد  زید بن عمرو ، ورقه بن نوفل ،عثمان بن حویرس ،

570 ء

 

ابوالقاسم، ابوالطیب، المصطفی، المجتبی، الصادق المصد وق، الامین، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامی، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی، آفتاب رسالت۔









 

 

محسن انسانیت محمدرسول اللہ صلی ال‍ّلہ علیہ و آلہ وسلم

 

پیدائش : (12  ربیع الاول  53ق ھ / اپریل  571ء  یا  9 ربیع الاول / 17 اپریل 570ء مکہ مکرمہ ( السیرتہ النبویتہ فی فتح الباری، از: ابن حجر عسقلانی، ص :1/212۔) بحوالہ رہبر انسانیت)

 

کاہنوں اور منجموں نے  یہ کہنا شروع کیا کہ ملک عرب میں ایک عظیم الشان نبی پیدا ہونے والے ہے اور بہت جلد آپ کی حکومت ظاہر ہوا چاہتی ہے۔ وہی یہودی اور نصاری  علماء نے بھی توریت و انجیل کی بشارتیں سنانی شروع کی۔ واقعہ اصحاب فیل کے بعد ملک یمن کی حکومت شاہ حبش ( "  ابرہتہ الاشرم"  دراصل اس زمانے میں شاہ حبش کی جانب یمن کا صوبہ دار تھا۔ ابراہہ نے یمن میں ایک معبد تیار کیا اور اہل عرب کو بجاۓ کعبہ کے یمن کے مندر کا رخ کیا لیکن اپنی تحریک میں کامیابی نہ ملی بلکہ ایک عرب نے اس مندر میں اس کی تذلیل کے لیے  پاخانہ کردیا ۔ ابرہہ نے جوش انتقام میں مکہ پر چڑھائی کی، ارادنا خانہ کعبہ کو مسمار کرنا تھا، اس فوج میں ہاتھی بھی تھے اس لئے  مکہ والے اس فوج کو اصحاب الفیل اور اس سال کو عام الفیل کہتے تھے)  کے  قبضہ سے نکل گئی اور سیف بن ذی یزن ( یادگار ملوک تبابعہ) یمن پر  قابض و متصرف ہوا، تو عبد المطلب ( دادا) نے بھی اس کو مبارک باد دی، سیف بن ذی یزن نے اپنے علم و واقفیت کی بناء پر  عبدالمطلب کو خوش خبری سنائی کہ نبی آخرالزمان جس کا تمام ملک اور ہر قوم کو انتظار ہے تمہاری اولاد سے ہوگا۔  اب لوگ اہل کتاب کے احبار و رہبان کے پاس جاجا کر نبی آخراالزمان کے حالات اور علامات دریافت کرنے لگے۔ آسمان پر بڑی کثرت سے اور غیر معمولی طور پر ستارے ٹوٹتے ہوۓ دیکھے جاتے ر ہے تھے،  شہاب ثاقب کے نمودار ہونے سے اہل کتاب نے حکم لگایا کہ یہ نبی آخرالزوان کی پیدائش کا زمانہ ہے، چنانچہ 9 دبیع الاول سنہ۔ اعام الفیل مطابق 40 جلوس کسری نوشیروان مطابق 22 اپریل 571ء بروز دو شنبہ بعد از صبح صادق از طلوع آفتاب آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوۓ۔جبکہ تمام دنیا پر شب دیجور کی سیاہی اور جہالت و کفر کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ ٹھیک پیدائش کے وقت کسراۓ نوشیروان کے محل میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے ، استخر (فارس،ایران)  کا مشہور آتش کدہ  جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی جلد١  ص 75)

 

بصری (ملک شام کے جنوبی حصہ میں ایک مقام) کے ایک عیسائی راہب " بحیرا " نے بھی چچا ابوطالب کو پیشن گوئی بتائی کہ  نبی آخرالزمان کے متعلق توریت انجیل میں جو علامت لکھی ہیں وہ علامات آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ  میں موجود ہیں۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی جلد1 ص 79)

  آپ ﷺ  کے شام کے دوسرے سفر ( تجارتی قافلہ جس کے ہمراہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کا مال تھا ) صومعہ ( ملک شام )  کے  ایک راہب " نسطورا " نے اپنے سومعہ سے بعض کتب سماویہ سے آپ ﷺ کے جسم اور چہرے سے مقابلہ کرکے پیشن گوئی ظاہر کی کہ نبی آخرالزمان کے جو علامات  اور خدوخال ہماری کتابوں ( کتب سماویہ) میں لکھے ہیں سب  آپ ﷺ  میں موجود ہیں۔( تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی جلد١  ص 81)

 

رسول اللہ  عام فیل  میں پیدا ہوئے اور واقعیہ فیل کے چالیس سال بعد مبعوث ہوئے.عکاظ کا میلہ طائف اور نخلہ کے درمیان  قائم ہوتا تھا  ایک زی قعد  سے  بیس  زی قعد  تک اس کا آغاز  570   ء   میں ہوا اور 746  ء ( ١٢٩ ھ ) تک جاری رہا . ٧٤٦

 

آپ  کی والدہ، آمنہ کی وفات،  آپ   بمشکل 6 سال کے تھے، آپ کے دادا، عبد المطلب آپ  کے سرپرست بن گئے  .

 

579

 

عبدالمطلب  دین  جاہلیت پر وفات .آپ ﷺ کی عمر ٨  سال .ابوطالب آپ کی حفاظت نگہداشت .

 

شام کا پہلا سفر :

ابو طالب کے ساتھ شام کا سفر اور بحری  راہب کی دعوت .

 

 581ء 

 

 مقام عکاظ کے میلے میں حرب فجار ( پہلی شرکت جنگ )  اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر مبارک 15 سال کی تھی۔

 ( تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 81)

 

595 ء  

شام کا دوسرا سفر :

آپ  کی حضرت  خدیجہ بنت خولد رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو اسد ( قریش) کی ایک معزز  اور مال دار خاتون ) سے شادی

اور ملا یکہ کا آپ پر سایہ کرنے کے معجزہ   دیکھ حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی  ورقه بن نوفل بن اسد  کا رسول الله کو نبی امت  کا اقرار کرنا. ،


573
 ء

امیر المؤمنین حضرت أبو بكر الصديق رضی اللہ تعالٰی عنہ

پیدائش  :     (574ء  51 ق ھ ( واقعہ فیل سے 3 سال بعد ) مکہ معظمہ، عرب )   

وفات    :      (23  اگست 634ء 22 جمادی الاخری 13 ھ  (عمر 100 سال )  مکہ

 

عہد       :      (8  جون  632ء 10ھ) – (23 اگست  634ء 12ھ)

آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یار غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے. حضرت علی نے بھی فرمایا تھا کہ اس امت محمدی میں سب سے زیادہ افضل ابوبکر صدیقہیں(معجم طبرانی) بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے.آپ آپ ﷺسے 2 سال 2 مہینے چھوٹے تھے، امام شافعی فرماتے ہیں کہ لوگوں نے صدیق اکبر کو بالا جماع خلیفہ بنایا کیونکہ اس وقت دنیا کے پردے پر ان سے بہتر آدمی نہ ملا۔ آپ کی صاحب زادی حضرت عائشہ صدیقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

 

عہد صدیقی میں جنگ یمامہ ہوئی جس میں حفاظ کرام صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش فرمایا، آپ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت کو قرآن پا ک کے ایک مجوعہ کی شکل میں مرتب کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری مع فتح الباری ، صفحہ 8 تا 11 ، جلد 9)



577ء

امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ

عہد        :    (11  نومبر  644ء  35 ق ھ) – (17 جولائی  656ء 35ھ)

پیدائش  :    ( 577 ء/ 47 ق ھ  (عام الفیل کے 6 برس بعد) مكة المكرمة، )   

وفات     :    ( 17 جولائی 656 ء / 35 ھ ) (عمر 79 برس)، جنت البقیع )

 

ناشر قرآن ،کاتب وحی، اسلام کے تیسرے خلیفہ راشد تھے۔ آپ نے 644ء سے 656ء تک خلافت کی ذمہ داریاں سر انجام دیں آپ نے 12 سال تک 44 لاکھ مربع میل پر اسلامی پرچم لہرایا ، آپ کی وجہ سے 1450 صحابہ کو قرآن نے جنت کی خوشخبری سنائی ۔ ( امام ترمذی)  آپ قریش کی ایک شاخ بنو امیہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے چوتھے نمبر پر اسلام قبول کیا۔ ( طبقات ابن سعد) ۔ آپ ایک خدا ترس اور غنی انسان تھے۔ آپ فیاض دلی سے دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرتے۔ اسی بناپر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔ آپ نے 12 دن کم 12 سال تک 44 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کی، آپ کے 6 سال فتوحات اور کامرانیوں پر اسلام کی پوری تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی، آپ ہی کے دور میں حضرت معاویہ امیر شام نے اسلام کا پہلا بحری بیڑا تیار کرکے بحر اوقیانوس میں اسلام کا عظیم لشکر اتار دیا تھا، پاپا‎‎ۓ روم پر سکتہ طاری کر کے آپ کی فوجوں نے فرانس اور یورپ کے کئی ملکوں میں (اور ہندوستان اور افریقی ممالک میں)  اسلام پہنچادیا تھا، آپ کے پے درپے کامیابیوں نے یہود و مجوس اور شرک و ثثلیت کے خوگروں نے سامنے آکر جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ منافقوں کا لشکر تیار کردیا جو آپ  پر خیانت کا الزام لگانے لگا اور آپ  کا محاصرہ کرکے آپ کا کھانا اور پانی بند کردیا گیا قریبا 40 روز تک بھوکے اور پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ حضرت عثمان کو جمعہ 18 ذوالحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے ہوۓ شہید کردیا گیا۔ (علامہ ضیاالرحمن فاروقی شہید)

 

جامع قرآن :  حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے ۔

 

586ء

امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ               

 عہد        :     (23  اگست  634ء 12ھ) – (7 نومبر  644ء 23ھ)

پیدائش   :     ( 586/590  ء 40  ق‌ھ ( واقعہ فیل کے 13 برس بعد )  مكة، تهامة، شبه الجزيرة العربية )                            

وفات     :     ( 7 نومبر  644ء 26  ذو الحجة  23 هـ ، المسجد النبوي،المدينة المنورة، الحجاز، شبه الجزيرة العربية )

 

             آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔" ( حسن ،سنن الترمذی ٥/٦١٩ رقم ٣٦٨٦ جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ (متفق علیہ )، آسمان کا ہر فرشتہ عمر کا وقار کرتا ہے اور زمین کا ہر شیطان اس سے ڈرتا ہے۔  امام عدل و حریت ، داماد علی ، قیصر و قصری کے فاتح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ، خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ  تھے ۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے  علانیہ خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنی شروع ہوئی ، نبوت کے چھٹے سال 33 برس کی عمر میں اسلام لائے ، آپ 40 مسلمان مردوں اور 11 عورتوں کے بعد اسلام میں داخل ہوۓ، آپ سابقین اور عشرہ مبشرہ میں ہیں، آپ کا شمار علماء اور زہاد صحابہ میں ہیں ، 1539 احادیث آپ سے مروی ہیں، 27 غزوات نبوی میں کسی موقع پر غیر حاضر نہ ہوۓ، آپ نے حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے بعد 10 سال 6 ماہ 10 دن تک 22 لاکھ مربع میل  زمین پر اسلامی خلافت قائم کی ، 3600 علاقے فتح کیے، آپ کے دور میں  900 جامع مساجد اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئی ۔ (علامہ ضیاالرحمن فاروقی شہید) ،

 الیگزینڈر  نے آرگنائز آرمی کے ساتھ دس برسوں میں 17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا تھا جبکہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ  نے دس برسوں میں آرگنائز آرمی کے بغیر  22 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا  اور اس میں روم اور ایران کی دو سپرپاور ز بھی شامل ہیں ،   تعجب ہے  !!! اصل سکندر اعظم کون ہے ؟ مقدونیہ کا الیگزینڈر  یا تاریخ اسلام کے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ  !!!  یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینا دنیا بھر کے مورخین پر  فرض ہے ؟؟؟ 

                                       

598ء

امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ         

عہد          :         (  656ء 35 ھ) – (  661ء 40 ھ)

پیدائش     :        (23 اکتوبر 598 ء ( آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کے 30 سال بعد)  مکہ معظمہ)   

وفات        :         (21  رمضان 40 ھ / 28 جنوری 661 ء کوفہ، عراق)

 

اسد اللہ ، حیدر کردار، ابوتراب ( مٹی کے باپ) ، سلسلہ تصوف کے امام ، داماد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ،  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے،  2 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر آۓ اور وہیں تربیت پائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر 29 سال تھی ۔ نو عمر وں  میں سب سے پہلے  مسلمان ہوۓ ۔ آپ  اسلام کے اولین مسلمانوں میں تیسرے نمبر پر تھے ، آپ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوۓ ،ہجرت کی رات آپ ہی بستر بنوی پر رسول الله صلم کی بجاے  سوے  تھے،  آپ کا دور حکومت 5 سال تک 22 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے تک محیط رہا۔ آپ نے باوقات مختلف 9 بیویاں کیں ۔ جن سے 14 لڑکے اور  17 لڑکیاں پیدا ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب آپ کا صرف حسن، حسین، محمد بن الحنفیہ، عباس بن کلابیہ  اور جعفر سے چلا، باقی کی نسل باقی نہ رہی ماہ رجب 2 ہجری میں آپ کا پہلا  نکاح سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو ا اس وقت آپ کی عمر 21 یا 24 تھی اور نکاح کا مہر چار صد مشقال مقرر کیا گیا۔ ( شرح مواھب المدینہ ج 2، ص 3 ) ۔  ۔ خوارج نے حضرت معاویہ ، حضرت عبداللہ بن زبیر ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ایک ہی دن اور ایک ہی وقت مقرر کیا اور قتل کا ذمہ عبدالرحمن ابن ملجم پر ڈالا، اس بدبخت نے 21 رمضان 40 ھ صبح فجر کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ  ( عمر  63) کو کوفہ کی مسجد میں نماز کے  لئے  جاتے ہوۓ شہید کر ڈالا۔ )تاریخ ابن خلدون  جلد سوم  صفہ 345 )

 

602-609 ء 

جبر، انیتی اور معاشرے میں مقبول بت پرستی ،شرک کی وجہ سے، آپ  ، جبل نور مکہ سے باہر چند میل دور غار حرا میں گئے .

 

606ء

 

 قبائل قریش میں نبی آخرالزمان ﷺ  کا حاکم مقرر ہونا ( حجر اسود والا جھگڑا ) :

 

 خانہ کعبہ میں کسی بد احتیاطی سے اگ لگ گئی تھی جس سے دیواریں جابجا شق ہوگئی تھیں،  ولید بن مغیرہ ( قریش)  نے عمارت کو منہدم کرکے ازسر نو تعمیر کا کام شروع کردیا ، بندرگاہ جدہ کے قریب  ایک جہاز ٹوٹ گیا تھا جس کی لکڑی قریش نے خانہ کعبہ کی چھت کے لۓ خرید  لی تھی۔  تعمیر ابراہیمی کی بنیاد لکڑی کی کمی کی وجہ سے ایک طرف جگہ چھوڑدی، تعمیر بلند ہوتے ہوتے اس مقام تک پہنچ گئی کہ حجراسود رکھا جاۓ، قبائل قریش میں حجراسود رکھنے کے لۓ سخت فساد اور جنگ کے سامان پیدا ہوگۓ کیونکہ ہر سردار چاہتا تھا کہ وہ حجراسود کو اپنے ہاتھ سے رکھے ، اس جھگڑے سے تعمیر کا کام 5 دن تک بند رہا۔ آخر قبائل قریش خانہ کعبہ میں جمع ہوۓ اور ایک مجلس منعقد ہوئی، ابوامیہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوتا نظر آۓ اسی کو حکم مقرر کیا جاۓ، لوگوں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آنحضرت ﷺ داخل ہورہے تھے، اور آپ ﷺ کے فیصلہ پر اتفاق ہوگیا اور  پھر آپ ﷺ نے ایک چادر بچھائی اس پر اسود اپنے ہاتھ سے رکھ دیا پھر ایک قبیلے کے سردار سے کہا کہ چادر کے کنارے کو پکڑلو،  چنانچہ  تمام سردارون قریش نے مل کر اس چادر کے کنارے پتھر کو اٹھایا اور  مقام پر اسود کو نصب کردیا، کسی کو کوئی شکایت باقی نہ رہی اور سب آپس میں رضا مند رہے، ورنہ اگر یہ جنگ چھڑ جاتی تو یقینا یہ تمام ان لڑائیوں سے زیادہ ہیبت ناک اور تباہ کن جنگ ثابت ہوتی جو اب تک زمانل جاہلیت میں ہوچکی تھی ، اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک 35 سال کی تھی۔ جس سال تعمیر کعبہ ہوئی  علی بن ابی طالب ( حضرت علی رضی اللہ عنہ، کی عمر 5 سال تھی)  کو  آپ ﷺ اپنے گھر لے آۓ تھے۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی ص 85/84)

 

610ء

 

قرآن کا نزول   ( 27  رمضان  12ق ھ / اگست  610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ)

 

آپ  پر قران کی پہلی آیات کا نزول. فرشتہ آپ   پر ظاہر ہوا اور پڑھنے کے لئے کہا.سب سے پہلی آیات      

 "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ  خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ  (5-96:1)   نازل ہوی . آپ ﷺ  کی عمر مبارک 40 سال تھی ۔ ( غار حرا کوہ حرا ( جس کو آج کل جبل نور کہتے ہیں) میں ایک غار تھا۔ مکہ سے تین میل کے فاصلے پر منی کو جاتے ہوۓ بائیں سمت واقع ہے۔ اس غار کا طول  چار گز اور عرض پونے دو گز تھا) ( تاریخ اسلام ، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 87)


613ء-622 ء

سب سے پہلے  اسلام  حضرت خدیجہ پھر  حضرت ابوبکر اور حضرت علی ، پھر زید بن حارثہ ، بلال بن  رباح  ( وا لدہ حمامہ ، مکہ میں امیہ بن خلف  ان پر تشدد کرتا تھا ) ، عمر بن عنبسہ  اسلمی  اور خالد بن سعید بن العاص  امیہ  پھر قریش ،  بنو امیہ میں حضرت عثمان بن عفان ، بنو عمرو کے خاندان سے حضرت طلحہ بن عبیداللہ،  بنو زہرہ سے حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدا لرحمن بن عوف  ، بنو اسد سے حضرت زبیر بن عوام  ( رسول الله کی پھوپھی  صفیہ کے بیٹے ) ، بنو الحا ث  سے حضرت ابو عبیدہ  بن عبدالله الجرح ، بنو مخزوم  سے حضرت ابو سلمی ، عبد الا سد اور بنو جمح  سے حضرت عثمان بن مظعون ( دونوں بھائی قدامہ اور عبدالله ) بنو عدی سے سعید بن زید اور انکی زوجہ فاطمہ جو حضرت عمر بن الخطاب کی بہن  ہے ، انکے والد زید بن عمرو  ( الگ امت ) ،  عمیر  بن ابی وقاص اور عبدالله بن مسعود ،جعفر بن ابی طالب  اور بیوی  اسما  بنت عمیس.        ( تاریخ ابن خلدون  جلد سوم صفہ   50 )
 کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ ۔

زید بن سعید ، سلما ن فارسی، ابو سفیان بن حرب ، عمرو بن مرہ جھنی ، سواد بن قارب ، ابن مرداس ،حضرت زمل ،حضرت تمیم داری ، حضرت راشد ،حضرت خریم  رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ  کے مسلمان ہونے کا واقعہ .

 

ہجرت حبشہ :

قریش کا مسلمانوں کو تکلیف دینا ہے فتنہ فساد  نہ ہو  ہجرت کا حکم ، مہاجرین حبشہ کی تعداد  83 تک تھی ،


613 ء    

دین کے لئے مصائب :

چچا ابولہب  کا   آپ صلم  کی دعوت میں ٹانگ  ڈالنا ، ابو جہل  بن ہشام  کا نماز کے دوران پتھر مارنے کی کوشش . حطیم کعبہ میں شرفا قریش کی میٹنگ ، کمزور مسلمانوں پر ظلم ، حضرت یاسر اور ان کی بیوی حضرت سمیہ کی شہادت۔ ( زادالمعاد: 3/22) اور حضرت بلال کو شدید ریت پر لیٹایا گیا اور مارا پیٹا گیا( سیرت ابن ہشام 1/318)  اور (حضرت`عثمان ،حضرت خباب ،` حضرت عمار ) کو مارا پیٹا گیا ۔


اعلان حق (عوام میں تبلیغ) : ( سورہ شعرا   26: 314  (

 

مستہزین  یعنی  ہنسی مذاک اڑانے والوں  کے نام  : چچا ا بولہب عبدالعزی ، بھتیجا ابو سفیان  بن الحا رث  بن عبد المطلب  ، عتبہ بن ربیعہ ، عقبہ بن ابی معیط،  ابو سفیان  حکم  بن ابی العاص     ، نضر بن حارث ، اسود بن مطلب  اور بیٹا زمعہ،ابو  البختری العاص  بن ہشام ، آمد بن ہشام، اسود عبد یغوث ، ابو جہل بن ہشام ، اسکا بھائی العاص ، ان کا چچا ولید، چچا زاد بھائی قیس بن الفاکہ ، زہیرہ بن ابی امیہ ، العاص  بن وائل سہمی اور انکا چچیرا بھائی نبیہ اور منبہ خلف بن جمح  کے بیٹے امیہ اور ابی .(تاریخ ابن خلدون   جلد سوم 51 )


615 ء
 

ہجرت حبشہ :
حبشہ  کی طرف 83 صحابہ کی ہجرت،  عیسائی بادشاہ شاہ حبش نجاشی  ( اصحمہ  بن بحریہ ) کا حبشہ میں امن کا وعدہ۔ حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی تقریر سے نجاشی کا قبول اسلام۔ ( سیرت ابن ہشام : 1/ 334-338، الکامل فی التاریخ: 2/ 81)  یہ واقعہ نبوت کے چھٹے سال کا ہے، نبی علیہ  السلام  نے نجاشی  جنازے کی نماز غائبانہ  پڑھی . یہ فتح خیبر
7 ھ  کے بعد کا واقع  ہے .


616 ء
 

حضرت عمر کا اسلام  لانا اور بیت الله میں نماز : (حضرت عمر  9  نبوی میں ہجرت سے چار سال قبل مسلمان ہوئے )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت امیر حمزہ (رضی اللہ عنہ،آپ بہت بڑے پہلوان، جنگ جو، عرب کے مشہور بہادر، شکار کرنے والے تھے) اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا قبول اسلام ( آپ کی عمر 33 سال تھی، آپ کے اسلام قبول کرنے کے وقت مکہ میں مسلمانوں کی تعداد 40 ہوگئی) ، مسلمانوں کا حوصلہ بڑھا ، مسلمانوں  کی طاقت بڑھتی دیکھ کر، قریش نے مسلمانوں  کے اقتصادی، سماجی بائیکاٹ ( نبوت کے ساتویں سال کی ابتداء یعنی ماہ محرم جسکو قطع موالات کہتے ہیں  تین سال تک بنو ہاشم اور مکہ کے مسلمانوں نے بڑی تکلیفیں اور اذیتیں شعب ابو طالب میں برداشت کیں ) کو شروع کیا ۔ (سیرت ابن ہشام : 1/ 342-348)

 

عیسای  وفد کا اسلام قبول کرنا .   (قرآن  28:52-55 )

 

قبائل قریش کا بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب  کی مخالفت کرنا ، ان سے بائیکات کرکے انھیں شعب  ابی طالب میں محصور کرنا :

مشرکین مکہ کا مسلمانوں پر ظلم و ستم  کی انتہا ، اور نبی علیہ  السلام کو قتل کی اعلانیہ دھمکیاں ،  شعب  ابی طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ،  امیہ بن خلف کے متعلق  سورہ ہمزہ ، عاس  بن وائل کے بارے میں سورہ مریم 77 ٧، ابوجہل کے لئے    108 نازل ہوئی ، نصر بن حارث  بن کلدہ  بن علقمہ  کے لئے  سورہ فرقان 5  اور سورہ جاشیہ 7  ، سورہ انبیا  98  ، ولید بن مغیرہ ،ثقیف کے رئیس  ابو مسعود عمرو ثقفی  اور  عظیم سرداروں پر وحی کیوں نازل نہیں ہوئی کا جواب 31/43  کی  آیات  نازل  ہوئی . ابن ابی خلف  کے اکسانے پر عقبہ بن ابی معیط کی گستاخی پر  سورہ فرقان  27-28٢ نازل ہوئی ، ابن ابی خلف   کا بوسیدہ ہڈی  زندہ کرنےکے سوال    پر  سورہ عبس78 ، عبادت کے مشترکہ منصوبے پر  سورہ فرقان ،نازل ہوئی 109 ( تاریخ ابن کثیر  حصہ سوم-127 121)

 

مہاجرین حبشہ کی مکہ واپسی ،

 

617ء

معجزہ شق القمر  :  (ہجرت سے پہلے کا واقعہ )

اہل  مکہ  والوں  نے رسول الله  سے   معجزہ  طلب  کیا تو  آپ صلم  نے ان کو   چاند  کے دو ٹکڑے   کر کے دکھا دیا  ،( سورہ قمر1 کی آیات نازل ہوئی    وہ  ٹکڑے اتنی دور تھے کہ غار حرا  ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان نظر  آرہا تھا ،  یہ دیکھ کر اہل مکہ نے کہا کے محمد نے ہماری آنکھ  پر جادو کردیا ہے . ( تاریخ ابن کثیر  حصہ سوم 158)

 

619 ء /  10 ق ھ 

عام الحزن ( غموں کا سال )  ( نبوت کا دسواں سال )

بائیکاٹ ( شعب ابی طالب ) کا اختتام ، رجب میں آپ ﷺ  کے چچا، ابو طالب  جن کی عمر 80 سال سے اوپر تھی بیمار ہوکر  دس نبوی میں فوت ہوۓ ، ابو طالب کی وفات کے قریبا دو ماہ بعد رمضان سنہ 10 نبوی میں حضرت خدیجتہ الکبری ( الله تعالی  نے ان کو جنت میں موتی  کے ایک محل کی خوشخبری سنائی ) کا بھی انتقال ہوگیا  ۔ ( سیرت حلبیہ: 2/ 40-50 ، تاریخ اسلام ، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد ١ ، 104), ممتاز شاعر  طفیل دوسی  رضی  کا کان میں روئی  بھرنے  کے بعد بھی  آپ ﷺ  کے کلام پر ایمان لانا ،  آپ ﷺ  کا   رکانہ  بن  عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف  ( قریش کاطاقتور   پہلوان ) سے کشتی اور اسے پچھا ڈ نا ،

حضرت عائشہ   سے شادی : رسول الله   نے حضرت خدیجہ  کے انتقال کے تین سال بعد حضرت عائشہ سے نکاح کیا  اور  پھر حضرت سودہ بنت زمعہ  سے نکاح کیا  جو  پانچ یا چھ یتیم بچوں کی ماں  تھی .

قریش کی سازش :  ابو طالب کی وفات کے بعد کے واقعیات ، کوئی آپ کے سرمبارک پر مٹی ڈال  دیتا ، تو کبھی آپ   پر نماز کی حالت میں اور  آپ کی ہانڈی میں بکری کا بچہ دان یا آوجھڈ ی  بھنکتا تھا ، 


620 ء  

طائف کا سفر :       ( 10 نبوی شوال / حضرت خدیجتہ الکبری  کی وفات کے ایک مہینہ بعد) 


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف (مکہ سے 60 میل کے فاصلہ) کےبااثر خاندان قبیلہ ثقیف ( جو لات کی پوجا کرتے تھے) کے تین سربراہوں ( رئیس) عبدیالیل، مسعود اور حبیب پسران  عمرو بن عوف بن عمیر  بن عوف بن عقدہ بن غیرت  بن عوف بن ثقیف میں دعوت کی ، سرداروں نے دعوت قبول نہیں کی۔ بلکہ عام انسانی اخلاق کے برعکس  شہر کے اوباش لوگوں نے بازار سے لے کر تین میل تک  پیچھا نہ چھوڑا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر چلاۓ گئے  ۔ پنڈلیاں پتھروں کی بارش سے لہولہان ہوگئیں اور اس قدر خون بہا کہ جوتیوں میں خون بھر گیا۔ پھر آپ  عتبہ اور شبہ پسران ربیعہ  کے باغ  میں پناہ لی ،  پسران ربیعہ  کے  عیسا ئ غلام  مسمی ا عداس  نے  طشتری میں انگور لا کر دے ، آپ کی اسکو دعوت ،   قرن تعالب میں  فرشتہ جبال  اور آپ کا اس قوم پر  نیک سلوک ..  ( تاریخ ابن کثیر  جلد سوم  صفہ 174 )


نصیبین کے جناتوں کا مقام نخلہ پر قبول اسلام۔ ( تاریخ اسلام ، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد اول 106) مکہ پہنچ کر  مطعم بن عدی  کے گھر رات گزاری اور  کعبہ کا طواف کیا.

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا لوگوں کو دعوت دینا  ( اے لوگوں لا الہ الا اللہ  کہو  کامیاب ہوجاوگے ) اور چچا  ابو لہب عبد العزی بن عبد ا لمطلب  کا پیچھے پیچھے آنا اور پیغام کو جھٹلانا . زی المجاز کے میلے  میں بھی ابوجہل  ڈھول  لیکر پیچھے آجاتا  تھا  اور کہتا  تھا کے  " یہ شخص  تمہارے روایتی دین  سے دھوکے میں نہ ڈال دے یہ چاہتا ہے کہ تم لات  و اعزی  کی  پوجا چھوڈ  دو ". 

اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شوال سنہ 10 نبوی میں حضرت عائشہ بنت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔ اسی سال آپ  کو معراج ہوئی۔ ( تاریخ اسلام ، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد اول 107)

 

27 رجب

اسراع اور  معراج ۔  ( ہجرت سے ایک سال پہلے   یا   پنج گانہ نماز  اسرا  کی رات ہجرت سے سولہ ماہ  قبل فرض ہوئی )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد حرام سے مسجد اقصی  اور بیت المقدس رات کے وقت ، براق پر  سفر ، تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھائ۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجدِ اَقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات  کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنی‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ ( معراج کی نسبت طبری کا قول ہے کہ ابتدا وحی یعنی نبوت کے پہلے سال ہوئی ، جب سے کہ نماز فرض ہوئی ۔ ابن حزم کا قول ہے کہ سنہ 10 ہجری میں ہوئی۔ بعض روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معراج ہجرت مدینہ کے بعد ہوئی ۔ ( تاریخ اسلام ، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد اول 107)
جمہور سلف خلف  کا مذھب ہے کہ اسرا  کا واقعہ جان اور جسم سمیت پیش آیا جیسا کہ حدیث میں  وارد  الفاظ ،براق پر سوار ہونا اور زینہ پر چڑھنا سے صاف ہے ، معراج کا واقعہ ایک آزمائش ہے  ( سورہ اسرا 60) اگر یہ خواب  ہوتا تو کفار  قریش ( ابوجہل  نے سن کر واویلہ مچایا تھا اور کفار خوب تالیاں اور سیٹیا  بجا رہے تھے )  اس کی تکذیب نہ کرتے . (تاریخ  ابن کثیر حصہ سوم 152)

 

کندہ قبیلہ میں دعوت ( رئیس ملیح )  ، بنی عبدالله  ( کلب قبیلہ کی شاخ ) میں تبلیغ ، بنی حنیفہ  کے  ڈیروں  میں دعوت ، بنو عامر  ( بحیرہ بن فراس عامری ) میں دعوت ، موسم حج میں ہر قبیلہ کو دعوت ، حضرت عباس کے ساتھ  قبیلہ کندہ  اور بکر بن وائل کو دعوت ، حضرت ابوبکر کے ساتھ  منی   مجلسوں میں دعوت ،خالہ زاد بھائی سوید  کا قبول  اسلام، ایاس  بن معا ز  کا اسلام لانا ، منی میں عقبہ کے پاس  موسم حج میں انصار ( خزرج ) سے ملاقات  اور آٹھ افراد کا قبول اسلام  ،(تاریخ  ابن کثیر حصہ سوم 189)

 

621 ء  

بیعت عقبہ اولی:


آخر سنہ 12 نبوی کے آخر مہینہ ذی الحجہ میں مقام منی کے پاس اسی مقام عقبہ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مدینہ (انصار) کے 12 آدمیوں  نے بیعت کی،  مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ  نے اسلام  کی تبلیغ کرنے کے لئے مسعب بن عمیر کو بیعت و تبلیغ اسلام کے لئے  بھیجا .  

         قبیلہ بنو ظفر کے سردار اسید بن حضیر اور  بنو عبدالاشہل کے سردار اعظم سعد بن معاذ کا قبول اسلام ، تمام بنو عبدالاشہل کے لوگوں نے اسلام قبول کیا ۔ یہ نبوت کا تیرھواں سال تھا۔ ( سیرت ابن ہشام : 1/ 432) ( تاریخ اسلام ، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد اول 114) 

 

622 ء / 13 ق ھ / 13 نبوی کا ماہ ذی الحجہ

 

بیعت عقبہ ثانیہ  :

حضرت مسعب بن عمیر کی تعلیم سے  یثرب کے گھر گھر میں اسلام کا چرچا ہونے لگا ( مکہ کے قریش کا ظلم تھمنے کا نام نہیں لیتا، یہ قافلہ زیارت نبی سے مشرب ہوکر آپ کی خدمت میں مدینہ والوں کی طرف سے مدینہ میں تشریف لانے کی درخواست پیش کرنے کے لئے  مدینہ سے مکہ جارہا تھا)  نتیجہ مدینہ ( یثرب )کے 72 مرد اور دو عورتوں  کے ایک گروپ کا مقام عقبہ  پر  آپ صلی اللہ علیہ اسلام کے ہاتھ پر بیعت اسلام ۔ ( سیرت ابن ہشام ، ج ا ، ص : 441-444)  ( تاریخ اسلام ، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد اول 116) 




No comments:

Post a Comment