پارٹ 4 : ( خلافت فاروقی )

 

خلافت فاروقی :  

 

  ( 23 جمادی الثانی سنہ 13ھ بروز سہ شنبہ مدینہ منورہ میں تمام مسلمانوں نے بلا اختلاف  فاروق اعظم کے ہاتھ پر بیعت کی )

 

حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد، حضرت عمر (591-644ء) اسلام کے خلیفہ جانشین ہوے. آپ کے  دور حکومت ، اسلامی سلطنت میں ایک بہت بڑی توسیع ہوی.

 

فتح دمشق:

 

یرموک سے بھاگے ہرقل کے رومی لشکر نے مقام فحل اور دمشق میں جاکر مقابلہ کے لۓ لشکر عظیم فراہم کیا۔  تو آخر رجب سنہ 13 ھ کو لشکر اسلام ( ملک شام کی اسلامی افواج کے سپہ سالار اعظم حضرت ابوعبیدہ بن جراح  باب الحابیہ ، حضرت خالد بن ولید ( جو فتح دمشق کے بعد  سپہ سالار ی سے معزول کۓ گۓ تھے کیونکہ فاروق اعظم نے ثابت کردیا کہ مسلمانوں کی کامیابیاں اور فتح مندیاں کسی شخص سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ مشیت ایزدی اور اسلام کی برکات ان فتوحات کا اصل سبب ہے، آج بھی اگر مسلمان اسلام کی پیروی میں صحابہ کا نمونہ بن جائیں تو وہی کامیابیاں اور فتح مندیاں جو قرون اولی میں حاصل ہوئی تھیں حاصل ہونے لگیں)  اور حضر ت عمرو بن العاص باب توما اور حضرت شرجیل بن حسنہ فراویس اور یزید بن ابی سفیان باب صغیر و باب کیسان کی جانب  چاروں طرف سے خیمہ زن ہوۓ اور  دمشق کا محاصرہ کیا۔)  جو 16 محرم سنہ 14 ھ تک  6 مہینے جاری رہا۔  مسلمانوں کی جنگی تیاری کا حال دیکھ کر دمشق کے ایک وفد نے باب توما کی جانب حضرت خالد بن ولید کے پاس آکر امان طلب کی ،آپ نے امان نامہ لکھ دیااور بلامقابلہ شہر کے اندر داخل ہوۓ۔

 

فتح فحل :

 

دمشق سے حضرت ابوعبیدہ بن جراح مقام فحل کی جانب بڑھے جہاں ہرقل کا نامی سردار " سقلاربر مخراق لاکھوں آدمیوں کا لشکر لۓ ہوۓ پڑا تھا، اسلامی لشکر خیمہ زن ہوا تو آدھی رات کے وقت رومیوں نے لشکر اسلام پر حملہ کیا،  جو کئی دن تک جاری رہی ۔ آخر رومی سردار سقلار میدان جنگ میں 80 ہزار رومیوں کو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کراکر خود بھی مقتول ہوا۔ باقی فرار ہوۓ اور مسلمانوں کے لۓ بے شمار مال غنیمت چھوڑ گۓ۔

 

قتح بیسان :

 

فحل سے نکل کر اسلامی لشکر بیسان کی جانب بڑھا اور شہر وقلعہ کا محاصرہ کرلیا، اول بیسان والوں نے مقابلہ کیا لیکن اسلامی لشکر کے مقابلے کے قابل نہ پاکر صلح کی درخواست کی ، تو سپہ سالار اسلام نے بخوشی درخواست کو منظور کے کے اہل بیسان پر جزیہ مقرر کیا۔ اس طرح طبریہ، صیداء ، عرقہ، حبیل اور بیروت پر معمولی زور خورد کے بعد تمام مقامات پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس طرح دمشق اور تمام علاقہ اردن مسلمانوں کے قبضہ مں آگیا۔

 

عراقی معرکے :

 

جب مثنی بن حارثہ حیرہ میں تھے تو ایرانیوں نے تمام رؤسا عراق کو مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کردیا تھا۔  اور رستم جو ایران کے دربار مدائن میں خراسان کا گورنر تھا نے مثنی بن حارثہ کے پہنچنے پر ایک زبردست فوج مثنی کے مقابلہ کو روانہ کی تھی۔ دوسری فوج شاہی خاندان کے ایک بہادر سپہ سالار " نرسی" کے ماتحت مقام کسکر کی جانب ( 30 ہزار فوج)  بھیجی اور تیسرا اعظیم الشان لشکر جابان نامی سردار کے ماتحت نشیبی فرات کی سمت روانہ کی تھی۔ اتنے میں ابو عبیدہ بن مسعود ثقفی  نے آکر تمام فوج کی سپہ سالاری اپنے ہاتھ لیکر مقام نمارق میں جابان پر حملہ آور ہوۓ، اور ان کی صفوف کو درہم برہم کرکے جمعیت کو منتشر کردیا تو اس شیرانہ وجواں مردانہ حملوں سے ایرانی میدان خالی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔

 

فتح کسکر:

 

رستم نے جابان کی شکست  دیکھ کر مدائن سے ایک عظیم الشان فوج جالینوس نامی سردار کی سرکردگی میں نرسی کی امداد کے لۓ کسکر روانہ کی، تو حضرت ابو عبیدہ بن مسعود نے جالینوس کے پہچنے سے پہلے ہی نرسی کے ساتھ جنگ شروع کردی۔ مسلمانوں نے نعرہ تکبیر کے ساتھ ایک زبردست حملہ کیا کہ ایرانی میدان کو خالی کرنے لگے، تو نرسی اپنی جان بچاکر پیچھے ہٹا ، نرسی کے بھاگتے ہی تمام لشکر بھاگ پڑا۔

 

جنگ بافشیا :

 

جالینوس کسکر تک پہنچنے پایا تھا کہ نرسی کو شکست فاش حاصل ہوگئی ، ابو عبیدہ نے سقاطیہ اور کسکر سے روانہ ہوکر بافشیا میں جالینوس پر حملہ کیا اور جالینوس تاب و مقاومت نہ لاکر وہاں سے بھاگا۔ اور مدائن میں جاکر دم لیا۔

 

ماہ شعبان سنہ 13 ھ :

 

 جکالینوس کے مدائن بھاگنے کی خبر نے دربار ایران پہنچی ۔ تو رستم نے بہمن جادویہ کو تین ہزار فوج اور تین سو جنگی ہاتھی دیکر روانہ کیا جو کہ دریاۓ فرات کے کنارے مقام قس ناطف میں آکر مقیم ہوا، حضرت ابوعبیدہ مقام کسکر سے روانہ ہوۓ اور مقام مروحہ فرات کے کنارے مقیم ہوۓ دونوں لشکر کے درمیان فرات حائل تھا۔ بالآخر فریقین کی رضامندی سے درایاۓ فرات پر پل تیار کیا گيا، تو بہمن جادویہ نے ابوعبیدہ کو پیغام بھیجا کہ تم دریا کو عبور کر کے اس طرف آتے ہو یا ہم ،  لیکن آپ نے دریا کو عبور کرنا پسند کیا۔ میدان کارزار گرم ہوا بہمن جادویہ نے ہاتھیوں کی صف کو لشکر کے آگے رکھا،  جس سے مسلمانوں کے گھوڑے بدک رہے تھے ،  لہذا حملہ پیادہ ہوکر کیا گیا، لیکن ہاتھیوں نے مسلمانوں کی صفوں کو درہم برہم کرنا شروع کیا، تو آپ نے ہاتھیوں کی سونڈوں کو تلوار سے کاٹنے کا حکم دیا، اور ان کے سواروں کو قتل کیا لیکن آپ پر ہاتھی نے حملہ کردیا ، اور آپ کے سینے پر پاؤں رکد دیا جس سے آپ کی پسلیاں چورچور ہوگئیں، تو آپ شہید ہوگۓ، آپ کے بعد آپ کے بھائی حکم نے فورا علم اپنے ہاتھ میں لیا لیکن وہ بھی ہاتھی پر حملہ آور ہوکر شہید ہوگۓ۔ ان کے بعد 6 آدمیوں نے یکے بعد دیگرے علم ہاتھ میں لیا اور جام شہادت نوش کیا۔ہاتھیوں کی حملہ آوری کی تاب نہ لاکر لوگ  فرار پر آمادہ ہوچکے تھے، حضرت مثنی نے ایرانیوں کے حملوں کو روکا اور  مسلمان دریا عبور کرگۓ۔ مسلمانوں کی تعداد 9 ہزار تھی جس میں 4 ہزار اور بروایت 6 ہزار شہید ہوگۓ تھے۔ ایرانیوں کے بھی 6 ہزار آدمی مارے گۓ ۔ لیکن اب تک کی تمام لڑائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا اس لڑائی میں نسبتا زیادہ نقصان ہوا اور اسی لڑائی میں ایسا اتفاق ہوا کہ مسلمان فرار بھی ہوۓ ۔

 

634  ء : نومبر

 

جنگ بویب :   ( ماہ رمضان سنہ 13 ھ )

 

شہادت ابو عبیدہ بن مسعود ثقفی اور مسلمانوں کا نقصان عظیم  کا حال معلوم ہونے پر حضرت فاروق اعظم نے خاص تیاریاں شروع کیں، اور مختلف قبائل  مدینہ سے مثنی بن حارثہ کی امداد کے لۓ عراق کی طرف روانہ کۓ گۓ۔ یہ حال سن کو ایران کا وزیر اعظم رستم نے مہران ہمدانی کو سالار جنگ بنا کر 12 ہزار انتخابی فوج کے ساتھ روانہ کیا۔ طرفین دریاۓ فرات کے کنارے مقام بویب میں جمع ہوۓ۔  چونکہ دریا کے عبور کرنے کا تلخ تجربہ آپ دیکھ چکے تھے لہذا آپ نے جوابا کہلا بھیجا کہ تم ہی فرات کو عبور کرکے اس طرف آجاؤ۔  جنگ کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے ان کا بڑی پامردی اور جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ بالآخر ایران کو مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ ایرانیوں کو بھاگتے دیکھ آپ نے پل کو توڑ  دیا۔ نتیجہ بہت سے ایرانی قتل ہوۓ اور بہت سے غرق دریاہوۓ۔ مہران مارا گیا۔ ایرانی لشکر کے تقریبا ایک لاکھ آدمی ( بروایت ابن خلدون) مقتول ہوۓ، اور مسلمانوں کے لشکر سے صرف 100 آدمی شہید ہوۓ۔  باقی بچے ہوۓ کا بھی مسلمانوں نے مقام ساباط تک تعاقب کیا۔اس لڑائی کے بعد سواد سے دجلہ تک کا تمام علاقہ مسلمانوں کے قبضہ و تصرف میں آگیا۔

 

635 ء

 

جنگ قادسیہ :  ( محرم سنہ 14 ھ)   

 

      قتل مہران اور بربادی لشکر عظیم کا حال سن کر دربار ایران بلکہ تمام ملک ایران میں کہرام برپا ہوگیا۔ کہ لڑائی میں ایک لاکھ ایرانی اور 100 عرب مقتول ہوۓ۔ اس وقت  تخت ایران پر شاہی خاندان کی  ایک عورت تخت نشین تھی  رؤسا ملک اور امراۓ دربار نے شاہی خاندان سے  یزرجرد ( عمر 21 سال )  کو اس عورت کی جگہ تخت سلطنت پر بٹھایا۔  دربار کے  امور سلطنت رستم بن فرخ زاد اور  فیروز میں مصالحت پیدا کی گئی، اور عربوں کے مقابلے کے لۓ متحد ہونےکی کوشیشں کی گئی۔

 

حضرت فاروق اعظم نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو 20 یا30 ہزار (جو مختلف قبائل اور علاقوں سے بتدریج ملتے گۓ تھے)  کے اسلامی لشکر (جس میں 300 صحابی ایسے تھے جو بیعت رضوان میں موجود تھے اور 70 صحابی ایسے تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے ) کو  قادسیہ روانہ کیا اور دو ماہ منتظر رہا۔ شہنشان ایران یزجرد کو قادسیہ میں اسلامی لشکر کی خبر ملی تو  وزیر جنگ رستم  کے ساتھ بتدریج ڈیڑھ لاکھ ایرانی لشکر ساباط میں جمع ہوا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کو خبر ملی تو دربار خلافت فاروقی سے پیغام آیا کہ ایران میں سفارت بھیج کر دعوت اسلام کے فرض سے سبکدوس ہوں۔ تو اسلامی سفیر دربار میں  اسلام کی دعوت دینے گۓ تو یزوجرد نے رستم کو  عربوں سے مقابلہ کرنے کے لۓ تقاضے بھیجتا گیا ساتھ میں کمکی سردار بھی روانہ کیا ، جس سے کل ایرانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار تک پانچ گئی۔  رستم کو 6 مہینے مدائن سے قادسیہ آنے لگ گۓ کیونکہ وہ لڑائی نہیں کرنا جاہتا تھا۔  آپ نے حضرت ربعی بن عامر ، حضرت حذیفہ بن محصن اور حضرت مغیرہ کو بتدریج رستم کے بلوانے پر ایلچی بھیجا۔ لیکن رستم نے بات نا مان کر لڑائی کی تیاری شروع کردی۔

 

     رستم نے نہر پر پل بنوایا اور  حضرت سعد کو پیغام بھیجا کہ تم نہر کے اس طرف آکر لڑو گے یا ہم کو نہر کے اس طرف آنا چاہیۓ ، تو حضرت سعد نے کہلا بھیجا کہ تم نہر کے اس طرف آجاؤ۔ رستم نے ہر حصہ سے  پونے دو لاکھ کے لشکر کو 30 ہزار کے لشکر کے مقابلہ کے لۓ تیار کرلیا۔ دونوں فوجیں مسلح ہوکر صف ارا ہوئی سب سے پہلے لشکر ایران سے شہزادہ " ہرمز " ( پہلوان) میدان میں پہنچا جس کے مقابلے کے لۓ حضرت غالب بن عبداللہ اسدی آۓ تو ہرمز کو گرفتار کرلیا اس کے بعد یکے بعد کئی سردار رستم نے بھیجے اور وہ گرفتار ہوتے گۓ تو اس نے ہاتھیوں کے مسلمانوں کی طرف ریلا۔ ہاتھیوں پر حملہ ہوا، تو رستم نے تمام لشکر ایران کو مجموعی طاقت سے یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا، حضرت سعد نے تکبیر کہی تقلید میں تمام اسلامی لشکر نے ایرانیوں پر حملہ کیا اور ایسا حملہ کیا کہ  فیل نشینوں کو جوابی تیراندازی کی مہلت ہی نہ ملی۔ رات کی تاریکی نے لڑائی کو کل کے لۓ ملتوی کردیا۔ کل کے  500 شہداء  کو دفن کریا گیا۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ملک شام سے  ایک ہزار کا لشکر حضرت ہاشم بن عتبہ کی سرادری میں  حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے بھیجا تھا قادسیہ آیا  اور حضرت سعد کو  مقدمتہ الجیش پر افسر حضرت قعقاع بن عمرو  لشکر کے پہنچنے کی خوشخبری سنا کر میدان میں نکلے تو بہمن جادویہ مقابلہ پر آیا داد سپہ گری دی گئی تو بہمن جادویہ ہلاک ہوا۔ میدان گرم ہوا اور  شام تک  ایک ہزار مسلمان اور 10 ہزار ایرانی  میدان جنگ میں کام آۓ۔  تیسرے دن نماز فجر سے فارغ ہوکر اول شہداء کو دفن کیا گیا۔ دونوں فوجیں مقابلے پر آئی۔ آج بھی انھوں نے ہاتھیوں کو آگے رکھا لیکن قعقاع و عاصم نے مل کر فیل سفید ( تمام ہاتھیوں کا سردار ) پر حملہ کیا اور مار ڈالا۔ تو ہاتھی بھاگنے لگے اور ایرانیوں کے لۓ نقصان رساں ثابت ہوۓ۔ لڑائی صبح سے شام تک جاری رہی ، پھر مفرب سے شروع ہوکر صبح تک جاری رہی تمام رات لڑائی شوروغل جلتا رہا۔ سپہ سالار  اسلام حضرت سعد دعا میں مصروف تھے کہ آدھی رات کو حضرت قعقاع کی آواز سنی کہ سب سمٹ کر قلب پر حملہ کرو اور رستم کر گرفتار کرلو۔  حضرت قعقاع رستم تک پہنچ گۓ  اسلامی حملہ آوروں کے قریب پہنچنے پر رستم تخت سے اتر کر لڑنے لگا۔ جب زخمی ہوا تو پیٹھ پھیر کر بھاگا۔  حضرت ہلال بن علقمہ نے بھاگتے ہوۓ برچھے سے وار کیا تو اس کی کمر ٹوٹ گئی اور نہر میں گر پڑا، ہلال نے فورا گھوڑے سے کود کر اور جھک کر رستم کی ٹانگیں پکڑ کر باہر کھینچ لیا اور اس کا کام تمام کرکے فورا رستم کے تخت پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے پکارا کہ " اللہ کی قسم میں نے رستم کو قتل کردیاہے۔ اس آواز  کے سنتے ہی اسلامی فوج نے نعرہ تکبیر بلند  کیا اور ایرانیوں کے ہوش و حواس باختہ ہوگۓ۔ ایرانی میدان سے بھاگے۔ لشکر ایران میں سواروں کی تعداد 30 ہزار تھی، جن میں بمشکل 30 سوار بھاگ کر ا پنی جان بچا  سکے، باقی سب میدان جنگ میں مارے گۓ۔  مال غنیمت فراہم کیا گیا اور دربار خلافت میں فتح کی خوشخبری کا خط لکھا گیا۔ حضرت زہرہ حیوۃ ایک دستہ فوج لے کر  بھاگے ہوۓ ایرانیوں کے پیچھے روانہ ہوۓ راستے میں بھاگوڑوں کو جالینوس روک کر مجتمع کررہا تھا آپ نے اس کو قتل کردیا  اور اس کے تمام مال و سامان پر قبضہ کرکے حضرت سعد کی خدمت میں حاضر ہوۓ۔  (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 321)

     

فتح بابل و کوثی:

 

قادسیہ سے بھاگے ہوۓ ایرانی بابل میں مقیم ہوکر مقابلہ کو تیار ہوۓ۔ حکم دربار خلافت آپ دو میہنے بعد بابل اپنی پوری فوج لے آۓ  تو ایرانی فرار ہوکر مدائن، ہوازن اور نہاوید چلے گۓ۔ حضرت سعد نے فرار و منتشر ایرانیوں کی خبر سن کر حضرت زہرہ بن حیوۃ کو آگے روانہ کیا جو  مقام کوثی  ( جہاں نمرود نے ابراہیم خلیل اللہ کو قید کیا تھا) پر پہنچے جہاں ایرانیوں کا مشہور سردار " شہر یار " مقابلہ پر آمادہ ہے۔  شہر یار کے للکارنے پر حضرت زہرہ نے ایک ادنی ترین غلام  نا‏ئل بن جعشم اعرج ( قبیلہ بنو تمیم کا غلام) کو  اشارہ کیا جس نے شہریار کے سینے پر بیٹھ کر بلا توفق خنجر  نکال کر  پیٹ چاک کردیا۔  شہریار کے مارے جاتے ہی تمام ایرانی فوجیں بھاگ پڑیں۔

 

بہرہ شیر کی فتح : ( ایک زبردست قلعہ جہاں بہادر فوج، باڈی گارڈ ، شاہی ایوان اور شاہی کارخانے تھے)

 

اسلامی لشکر کوثی سے بہرہ شیر پہنچا، تو اس کا محاصرہ کرنا  پڑا جو 3 مہینے تک جاری رہا۔ آخر محصورین سختی سے تنگ آکر مقابلہ پر آمادہ ہوۓ ۔ بالآخر مقتول و مفرور ہوۓ اور اسلامی لشکر فاتحانہ بہرہ شیر میں داخل ہوا۔ جس کی وجہ سے یزدجرد کو مع خزائن ، مدائن سے بھاگنے کی تدابیر   کرنی پڑی۔

 

بحر ظلمات میں دوڈادیئے گھوڑے ہم نے

 

حضرت سعد  مدائن پر قبضہ کرنے کے خیال سے  اپنا گھوڑا دریا (دریاۓ دجلہ جس کے پل کو بہرہ شیر سے بھاگے ہوۓ ایرانیوں نے منہدم کودیا تھا)  میں ڈال دیا آپ کی تقلید میں لشکر اسلام نے بھی دجلہ کی طوفانی موجوں  کا مقابلہ کرنا شروع کردیا ۔ نصف دریا  عبور ہوا ہی تھا کہ ایرانی تیر اندازوں نے تیر بازی شروع کردی  تو حضرت عاصم اور ان کے 300 تیر اندازوں نے زورقوت سے تیر پھیکے کہ ایرانی مقتول و مجروح ہوۓ اور اپنی جان بچانے  کی تدبیروں میں مصروف ہوکر لشکر اسلام کو عبور دریا سے نہ روک سکے۔ اور  پھر مسلمانوں نے ایرانیوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔

 

فتح مدائن:

 

یزجرد کو خبر ہوتے ہی وہ مدائن سے بھاگ چکا تھا۔ مسلمان شہر میں داخل ہوۓ تو حضرت سعد نے  ایک سلام سے 8 رکعت صلوۃ الفتح پڑھیں، قصرابیض ( جس جگہ کسری کا تخت تھا) میں منبر رکھا گیا اور اسی قصر میں جمعہ( پہلا جمعہ تھا جو دارالسلطنت ایران) ادا کیا گیا۔  پھر تمام کے تمام ایوان شاہی کے خزانے ، تلواریں، زریں ، چاندی سونے اور جواہرات کی مورتیں کسری کا شاہی لباس ، زرنگار تاج اور اس قسم کی بہت سی چیزیں جمع کرکے حضرت سعد نے دربار خلافت کو روانہ کردیں۔

 

معرکہ جلولاء :   ( سنہ 16 ھ )

 

یزجرد مسلمانوں کے مدائن پر قبضہ کرنے کی وجہ سے مقام حلوان میں مقیم ہوا ۔ اور رستم کے بھائی خرذاد بن فرخ زاد جلولاء میں بڑی مقدار میں جنگی تیاریاں کرنے لگا۔  حکم فاروقی کے موفق حضرت ہاشم بن عتبہ  مدائن سے 12 ہزار فوج لے کر جلولاہ  روانہ ہوۓ، مہینوں کے محاصرہ کے بعد بہت سے  معرکے  ہوۓ لیکن ایرانی مغلوب ہی ہوۓ، آخر مسلمانوں کے مقابلہ میں ناکام و نامراد ثابت ہوۓ اور ایک لاکھ ایرانی اس معرکے میں مقتول ہوۓ، تین کروڑ  کا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔

 

شامی معرکے  :  ( 2 سال  پہلے) 

 

فتح حص   :

 

 ( جہاں سورج کا مندر تھا ) اسلامی لشکر کا  مقام ذوالکلاع میں قیصر ہرقل کے قوذربطریق  اور شمس بطریق کے ساتھ  مقابلہ ہوا۔ شمس بطریق ، حضرت ابو عبیدہ کے ہاتھ سے مارا گیا اور  لشکر شکست کھاکر حمص بھاگا یہ سن کر قیصر ہرقل حمص چھوڑ کر الرابا  چلا گيا۔ آپ نے حمص کا محاصرہ کیا اور حمص فتح کیا۔ اس کے بعد شہر حماۃ، شیرز، معرۃ، شہر لاذقیہ، اور سلیمہ پر مسلمانوں نے قبضہ کیا۔

 

فتح قنسرین : سلیمہ کے بعد حضرت خالد بن ولید (بحکم ابو عبیدہ) نے قنسرین  کو سخت مقابلہ کے ساتھ فتح کیا۔

 

فتح حلب و انطاکیہ : حضرت ابو عبیدہ نے حلب کا محاصرہ کیا اور  اہل حلب نے صلح کرکے شہر کو سپرد کیا۔ انطاکیہ قیصر ہرقل کا ایشیائی دارالسلطنت تھا جہاں اس کے شاہی محلات، حفاظتی سامان  موجو تھے ، وہی تمام مفرور عیسائی بھاگ بھاگ کر انطاکیہ ہی پناہ گزین ہوتے) مسلمانوں سے عیسائیوں نے مقابلہ کیا، شکست کھائی مسلمانوں نے محاصرہ کیا ، مقام معرہ  میں بڑی بھاری جنگ ہوئی، اور فتح یابی مسلمانوں کو ملی۔ فتح انطاکیہ کے بعد تمام مواضعات و قضبات ، قورس، بنج، عزار  وغیرہ بلا جنگ و پیکار مسلمانوں کی اطاعت و قبضہ میں داخل ہوگۓ اور فرات تک شام کے تمام شہر مسلمانوں کے قبضے میں آگۓ۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 328)

 

فتح بفراس و مرعش و حرث :  

 

حضرت ابو عبیدہ نے فلسطین کی طرف  توجہ فرمائی۔ اور

1)      ایک لشکر میسرہ بن مسروق کی سرداری میں مقام بفراس کی طرف روانہ کیا اور بڑا بھاری معرکہ ہوا۔

2)       انطاکیہ سے مالک بن اشترنجعی کو میسرہ کی طرف جس سے عیسائی گبھراکر بھاگے۔

3)      حضرت خالدبن ولید مرعش کی طرف جہاں عیسائی جلاوطنی کی اجازت لیکر شہر کو آپ کے سپرد کرگۓ۔

4)       ایک لشکر حبیب بن مسلمہ جو قلعہ حرث کی طرف گۓ اور اس کو فتح کیا۔

 

فتح قیساریہ ( قیصرہ) و فتح اجنادین :

 

 حکم فاروقی کی بنا پر معاویہ بن ابی سفیان  مع فوج  نے ایک سخت معرکہ میں 80 ہزار عیسائیوں کو میدان جنگ میں قتل کیا، اور قیساریہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ مقام اجنادین میں ( جہاں قیصر ہرقل نے ارطبون نامی بطریق کو سپہ سالاری دیکر  اسلامی لشکر کے منتظر کیا)  حضرت عمرو بن العاص نے سخت معرکہ  (جو جنگ یرموک کی مانند تھی) کی تو ارطبون شکست کھاکر بیت المقدس بھاگا۔ اور اجنادین پر حضرت عمرو کا قبضہ ہوا۔

بصرہ ، دمشق اور اجنادن کی جنگیں. نمارک اور سقاطیہ کی جنگیں.


635ء

 برج ، بویب کی لڑائی. دمشق کی فتح. فحل کی لڑائی.


635ء-641ء
 
اسلامی سلطنت کی اہم توسیع ۔  مسلمانوں نے شام، فارس، اسکندریہ، اور جلولہ کو فتح کیا.

 

 638 ء  17  ھ

 

شہر بیت المقّدس کی اسلامی فتح  :

 

حضرت عمرو  نے غزوہ، سبط، نابلس، لد، عمواس، جبرین، یافا وغیرہ مقامات پر قبضہ کیا، اور بیت المقدس کے اردگرد کے تمام علاقے پر قابض ہوۓ سپہ سالار اعظم حضرت ابو عبیدہ کے پہنچنے پر تمام عیسائیوں نے صلح کے سلام و پیام جاری کۓ اور جنگ پر صلح کو فوقیت دیکرحضرت ابو عبیدہ نے بیت المقدس کے عیسائیوں کی شرائط صلح کو مان لیا جس میں شرط تھی کہ عہد نامہ خود خلیفہ وقت آکر لکھے۔

 

637 ء  رجب سنہ 16ھ :

 

ستوؤں کا ایک تھیلا، ایک اونٹ، ایک غلام ایک لکڑی کا پیالہ ہمراہ لئے ، سفر میں کبھی غلام اونٹ کی مہار پکڑکر چلتا اور فاروق اعظم اونٹ پر سوار ہوتے اور کبھی غلام اونٹ  پر سوار ہوتا اور فاروق اعظم اونٹ کی مہار پکڑکر آگے چلتے ۔ یہ اس عظیم الشان شہنشاہ اور خلیفہ اسلام کا سفر تھا۔ جس کی فوجیں قیصرو کسری کے محلات اور تخت وتاج کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں میں روند چکی تھیں۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 331)

 

حضرت عمر  کی سرپرستی میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اور خالد بن الولید  کی قیادت میں یروشلم فتح  ہوا۔ آپ  نے اس  وقت مسجد صخرہ کی تعمیر کے لۓ نقشہ وضع کیا اور آپ نے  یزید بن معاویہ کو گورنر نامزد کیا، اور سلامہ بن قیصر کو امام بنایا ۔ مفتوح عیسائیوں نے شرط عائد کی کہ صرف حضرت عمر  کو ہی شہر کی چابیاں دینگے اور شہر میں قدیم رومی سرکلر کے  مطابق یہودیوں کا داخلہ ممنوع رہنا چاہیے  حضرت عمر  نے ساری شرطوں کو تسلیم کیا لیکن یہودیوں کے داخلہ کے ممنوع کی شرط کو مسترد کردیا تھا۔ ( آج عیسائی یہودی ایک ہوگئے  اور فلسطینیوں کو اپنی ہی جگہ ممنوع ہے ؟ )  ( فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں 105 )

 

صلیبیوں اور یہودیوں کا گٹھ جوڑ : 

 

                              دونوں میں چٹھی صدی عیسوی سے عداوت کیوں چلی آرہی تھی ؟ قیصرہرقل کے زمانے میں تو ان کی دشمنی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ لاتعداد یہودی قتل کردے گئے ۔ اور بہت سے جان بچا کر ایران و مصر کو چلے گئے ، یہودیوں کے پاس بہت دولت تھی، لہذا  یہودیوں نے ایران میں 80 ہزار عیسائی غلاموں کو خرید کر اور قتل کرکے اپنے جذبۂ انتقام کو تسکین دی۔ یہ دیرینہ عداوت 20 وی صدی تک رہی۔ لیکن جنگ عظیم اول و دوم میں بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر ان دونوں میں گٹھ جوڑ ہو گیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ فریقین نے اپنی قدیم دشمنی اور انتقامی جذبے کو ترک کردیا ؟ اور کیا یہ دوستی عربوں کو ختم کرنے کے لئے  کی گئی ؟ اس سوال کا جواب مستقبل دینگا۔  ؟ ( اسلامی طریقہ جنگ 60)


فتح تکریب و جزیرہ : 638ء ( سنہ 17ھ )

 

( رومی اور ایرانی گھٹ جوڑ ) بحکم فاروقی حضرت سعد بن ابی وقاص نے عبداللہ بن المعتم کو 5 ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ کیا ، لشکر اسلام نے تکریب کا محاصرہ کیا، بڑی خونریز جنگ کے بعد رومی اور ایرانی شکت فاش ہوۓ،  کچھ بھاگے ، قبائل اسلام قبول کیا، باقی مقتول ہوۓ۔ مال غنیمت اس قدر ہاتھ آیا کہ لشکر کے ایک ایک سوار کے حصہ تین تین ہزار درہم آۓ۔

 

سنہ 17 ھ : 

 

بصرہ کوفہ بسانے کا فرمان فاروقی  :

 

 لشکر اسلام کی عراق  کی آب و ہوا  ناموافق ہونے کی وجہ سے  آپ نے اہل عرب کے لۓ فوجی چھاونیاں، مکانات بنانے کو منظوری دی اور کوفہ میں لوگ آباد ہونا شروع ہوۓ جو  کہ اسلامی طاقت کے مرکز شمار ہوۓ۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 335)

 

فتح  اہوازن و  ہرمزان کا قبول اسلام:

 

 حضرت سعد بن وقاص کے ساتھ دو مرتبہ جنگ اور صلح کے بعد ہرمزان  ( ایرانیوں کا نامی سردار)  کی فوج سے مقابلہ کیا شکست فاش کیا اور رام ہرمز پر قبضہ کیا، فرار ہرمز مقام تشتر  پہنچا۔  تشتر کے قلعہ کو مصلح ہوکر مسلمانوں کے خلاف فوجیں جمع کرنے لگا تو حکم فاروقی سے  حضرت ابو موسی بصرہ کی افواج کے سردار بنا کر بھیجے گئے   بہت سی لڑائیوں کے بعد شہر تشتر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا، ہرمز ان نے حضرت ابو  موسی سے درخواست بھیجی کہ مجھے فاروق اعظم  کی خدمت میں بھیج دے ، مدینہ منورہ میں فاروق اعظم کی خدمت میں  ہرمزان نے اسلام قبول کیا۔ آپ نے ہرمزان کو مدینہ رہنے کی اجازت دی اور 2 ہزار سالانہ تنخواہ مقرر کردی۔

 

639ء  

 

فتح مصر :

 

 (فاروق اعظم کی تین شرطیں اسلام، جزیہ اور جنگ )

بحکم فاروقی عمرو بن العاص 4 ہزار اسلامی لشکر  لیکر مصر کی جانب بڑھے، بھگوڑا رومی سردار ارطبون  بھی مح افواج مقیم تھا ، ارطبون کے ساتھ سخت معرکہ ہوا جو شکست کھا کر بھاگا، آگے بڑھ کر مسلمانوں نے مقام عین شمس کا محاصرہ کیا، عین شمس والوں نے جزیہ دیکر صلح کرلی، اس کے بعد حضرت عمرو بن العاص  نے حضرت زبیر بن العوام کو سپہ سالار بنا کر نسطاط روانہ کیا، قلعہ کو جنگ بسیارو پیکار کے بعد فتح کیا، عمرو بن العاص نے اسکندریہ پر حملہ کیا،  تین مہینے کے محاصرے کے بعد اسکندریہ مفتوح ہوا۔ اور مقوقش شاہ مصر نے صلح کرلی ۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 338)

 

640ء  

شام میں عہد قیصرپر قبضہ. شستان اور فارس(ایران) میں جند صبر کی فتح. مصر میں بابل کی جنگ.


641ء   

 

جنگ نہاوید : ( Sasanian Persian armies under King Yazdegerd III) Battle of Nahavand)

 

یزجرد شہر مرو ( دارالصدر خراسان) میں مقیم ہوا اور ایک آتش کدہ بنوایا، لیکن اہوازن اور ہرمزان کے مدینہ چلے جانے سے طیش میں آیا اور پوری قوتکے ساتھ مسلمانوں کے استیصال کے لۓ مستعد کیا۔  طبرستان، جرجان، خراسان، اصفہان، ہمدان، سندھ وغیرہ ملکوں سے جوق درجوق لشکر ی لوگ جمع ہوۓ ہزجرد نے فیروز  یا مروان شاہ کو سپہ سالار بنا کر ڈیڑھ لاکھ لشکر جرار کے ساتھ نہاوید روانہ کیا۔ فاروق اعظم کو خبر ملنے پر 30 ہزار کا لشکر حضرت نعمان بن مقرن کے ساتھ  کوفہ سے نکلا ، لڑائی شروع ہوئی۔  ایرانیوں نے شہر کے باہر لوہے کے گوکھرو بچھارکھے تھے جس سے لشکر اسلام شہر کی فصیل کے قریب  نہیں جاسکتا تھا مشورہ ہوا حضرت طلیحہ بن خالد کی راۓ کے مفافق اسلامی فوج شہر سے 6 یا 7 میل  پیچھے ہٹی، حضرت قعقاع تھوڑی سی فوج لیکر شہر پر حملہ آور ہوۓ ، تھوڑی سی فوج کو دیکھ کر ایرانی جوش و خروش سے مقابلہ کو نکلے آپ مقابلہ کرتے کرتے پیچھے ہٹتے، ایرانی فتح کی خوشی میں  جمعیت کو دباتے ہوۓ آگے بڑھتے چلے آۓ۔ نعرہ تکبیر کے ساتھ یکایک حملہ کیا گیا تو ایرانی لشکر نہایت بے سروسامانی کے ساتھ بھاگا،  بدیخ قتل کیا، سراسیمہ ہوکر  بھاگا ہوا لشکر گوکھروں سے نا بچ سکا جو مسلمانوں کے لۓ بچھایا گیاتھا۔ ہزاروں ایرانی گوکھروں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوۓ، نہاوید سے بھاگے ایرانی سردار ہمدان میں جمع ہوۓ ، نعیم و قعقاع نے ان فراریوں کا پاشنہ کوب کر ہمدان کا محاصرہ کرلیا اور بآسانی ہمدان پر اسلامی قبضہ ہوگیا۔

 

سنہ 21 ھ :

 

1)       اصفہان عبداللہ بن عبداللہ کے ہاتھ  فتح ہوا،

2)       حضرت نعیم بن مقرن نے رے آذربائیجان کو بڑے خوں ریز معرکہ کے بعد فتح کیا

3)      سوید بن مقرن نے قومس کو فتح کیا۔ اس کے بعد جرجان فتح کیا۔

4)       حضرت بکیر نے ارمینیا فتح کیا۔

5)       عبدالرحمن بن ربیعہ نے شہر بیضا اور علاقہ خزر فتح کیا۔

6)       23ھ میں عاصم بن عمر نے ملک سیستان فتح کیا۔

7)       سہیل بن عدی نے کرمان فتح کیا۔

8)      حکم بن عمر والتغلبی نے مکران ( بلوچستان کا ملک) فتح کیا۔

9)       احنف بن قیس نے یزجرد کو بلخ میں شکست دی تو یزجرد ترکستان بھاگا، اور خراسان پر مسلمانوں کا قجضہ ہوگیا۔ یزجرد فرغانہ میں خاقان کے ساتھ خراسان میں حملہ آور ہوا  اور شکست کھائی ۔   اور اسطرح  مجوسیوں کی حکومت فنا ہوئی۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی جلد اول 342 )

 

قحط اور طاعون : 

 

 ( سنہ 17ھ کے آخیر میں عراق ، شام، اور مصر میں طاعون نمودار ہوا، ساتھ ہی عرب سرزمین میں قحط عظیم برپا ہوا۔ اس طاعون سے حضرت ابو عبیدہ (مقام جابیہ) ، معاذ بن جبل،  یزید بن ابی سفیان (دمشق) فوت ہوۓ۔

 

شہادت فاروق اعظم :

 

 حضرت عمر فاروق  مسجد نبوی میں نماز فجر کی امامت کے لئے  آگے بڑھ کر  نماز شروع کرچکے تو مغیرہ بن شعبہ کا ایک نصرانی غلام فیروز ( ابولولو)  نے جو مسلمانوں کے ساتھ صف اول میں کھڑا تھا، نکل کر فاروق اعظم پر خنجر کے 6 وار کۓ، جن میں ایک وار ناف سے نیچے پڑا۔ آپ نے فورا حضرت عبدالرحمن بن عوف کو کھینچ کر اپنی جگہ کھڑا کردیا اور خود زخموں کے صدمہ سے بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے لوگوں کو اس حالت میں نماز پڑھائی کہ فاروق اعظم زخمی سامنے پڑے تھے، ابولولو کو پکڑنے کی کوشش کی، جب اس کو گرفتار کیاگیا اسی وقت اس نے خود کشی کرلی۔ چہار شنبہ 27 ذی الحجہ سنہ 23ھ کو آپ زخمی ہوۓ اور یکم محرم سنہ 24ھ کو ہفتہ کے دن فوت ہوکر مدفون ہوۓ۔ آپ حضررت عائشہ کی اجازت حاصل کرکے حضرت صدیق اکبر کے پہلو میں دفن ہوۓ۔

 

مالی وملکی، سیاسی و انتظامی، معاشرتی و تمدنی اولیات فاروقی :

 

              آپ نے   بیت المال باقاعدہ طور پر قا‏ئم کیا، سنہ ہجری قائم کیا، امیر المومنین کا لقب اختیار کیا، فوج کے واسطے باقاعدہ دفتر مقرر کیا، مالی دفتر الگ قائم کیا، رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کیں، ملک کی پیمائش کا قاعدہ جاری کیا، مردم شماری کرائی، راستے، کنویں،  نہریں کھدوائیں، شہر آباد کراۓ، صوبوں میں علاقوں کو تقسیم کیا، درہ کا استعمال کیا، جیل خانہ قائم کیا، پولیس کا محکمہ قائم کیا، نماز تراویح باجماعت پڑھنے کا اہتمام کیا، نماز جنازہ میں چار تکبیروں کا اجماع کیا۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 347)

 

642ء    

فارس میں" رے" کی لڑائی. مصر کی فتح. فستاد کی بنیاد.

 

642ء

 

حضرت خواجہ حسن بصری :

 

پیدائش     :     ( 21 ھ / 642ء  المدينة المنورة  )

 وفات        :     ( جمعہ 15 رجب 110 ھ / 728ء بصرہ )   ( عمر 89 سال)

 

صوفی بزرگ ۔ نام حسن ۔ کنیت ابو محمد ، ابو سعید اور ابی البصر ۔ لقب خواجہ خواجگان ۔ حضرت عمر فاروق کے زمانۂ خلافت میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد موسی راعی زید بن ثابت انصاری کے آزاد کردہ غلام تھے۔ والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت ام سلمہ کی لونڈی تھیں۔ ابتدا میں آپ جواہرات بیچا کرتے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے دست بیعت ہوۓ۔

 

644ء


حضرت عثمان
 تیسرے خلیفہ  بنے ، شہادت حضرت عمر ۔

 

  

No comments:

Post a Comment