پارٹ 3 : خلافت ابوبکرصدیق

 

11 ھ

661-632ء

 

 راشیدن خلافت  :     (RIGHTLY GUIDED CALIPH )
             

اسلام کی ابتداء اور اس کی نشوو نما، مخالفین کی کوشیشیں جنگ و پیکار کے ہنگامے، شرک کا مغلوب و معدوم ہونا اور اسلامی قانون و اسلامی آ‏ئین کے سامنے سب کا گردنیں جھکا دینا سب کچھ ان لوگوں کے پیش نظر تھا اور وہ جانتے تھے کہ یہ نظام اب وفات نبوی کے بعد دنیا میں اسی وقت بحسن و خوبی قائم رہ سکتا ہے کہ آپ  کا جانشین منتخب کرلیا جاۓ ، اس عظیم قوم نے اپنے دینوی اور مادی خدمات کو اپنے دینی اور روحانی جذبات پر غالب نہ ہونے دیا۔ اور 33 ہزار صحابہ کرام نے ایک دن میں خلیفہ کے طور پر حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اور پھر تمام ملک عرب اور سارے مسلمانوں نے آپ کو خلیفہ رسول  تسلیم کیا تو خلافت صدیقی سے بڑھ کر کوئی دوسرا اجماع امت میں نظر نہیں آیا۔

آنحضرت ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید کو اپنے مرض الموت میں شام کی جانب رومیوں کے مقابلہ کو لشکر اسلام کے ساتھ روانہ فرمایا تھا لیکن آنحضرت ﷺ کی علالت کی وجہ سے یہ لشکر رکا ہوا تھا۔ اب بعد وفات نبوی ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت اسامہ ( عمر 17 سال ) مع لشکر  روانہ کیا اور حضرت اسامہ نے آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے موافق درون و بلقا کی وادیوں میں پہنچ کر رومیوں کے لشکر سے لڑائی شروع کردی، 40 دن کے بعد لشکر بے شمار مال غنیمت اور قیدی لے کر مدینہ واپس آیا۔

 فتنہ ارتداد بعد وصال رسول الله ﷺ  :

کذابین  ( جھوٹے مدعیان نبوت) نماز وغیرہ عبادات کے منکر نہ تھے اور نہ یہ ارتداد کفر و شرک کے  لئے تھا بلکہ بعض ارکان اسلام بالخصوص زکوۃ سے لوگوں نے انکار کیا تھا۔  چونکہ یہ ایک سرکشی تھی لہذا نو مسلم سرکشوں کو مسلیمہ و طلیحہ وغیرہ کذابین نے اپنی طرف جذب کرنے اور مالی عبادات کے علاوہ جسمانی عبادات میں بھی تخفیف کرکے اپنی اپنی نبوت منوانے کا موقع پایا۔ مرتدین کی خبر پھیلی اور  اس عظیم الشان خطرہ کا علاج مشرکین و کفار کی معرکہ آرائیوں سے زیادہ سخت اور دشوار تھا۔ مرتدین کے وفود مدینہ میں آۓ اور انہوں نے درخواست کی " نمازیں ہم پڑھتے ہیں، زکوۃ ہم کو معاف کردو۔" حضرت ابوبکر صدیق کا صاف جواب سن کر منکرین زکوۃ مقابلہ اور معرکہ آرائی کے لۓ تیار ہوگۓ، مقام ابرق میں قبیلہ عبس اور مقام ذی القصہ میں قبیلہ ذیبان نے مدینہ پر حملہ کردیا، لیکن مسلمانوں نے ذی خثسب تک ان کو پسپا کردیا اور ہزیمت پاکر بھاگ نکلے۔ لشکر حضرت اسامہ مع مال غنیمت مدینے میں داخل ہوا ، تو آپ نے اسامہ اور ان کے لشکر کو مدینہ میں چھوڑا اور خود مدینہ کے مسلمانوں کی مختصر سی جمعیت لے کر ذی خثسب اور ذی قصہ کی طرف خروج کیا۔ مقام ابرق میں عبس و ذیبان و بنو بکر و ثعلبہ بن سعد وغیرہ قبائل برسر مقابلہ ہوۓ ، نہایت سخت لڑائی ہوئی، انجام کار مرتدین شکست یاب ہوکر فرار  ہوۓ۔

         صدیق اکبر نے مدینہ منورہ میں آتے ہی اول ایک فرمان لکھا اور اس کی متعدد نقلیں کراکر قاصدوں کے ذریعہ مرتدقبیلہ کی طرف ایک ایک فرمان بھیجا۔ ان کے بعد آپ نے گیارہ علم تیار کۓ اور گیارہ سردار منتخب کرایک ایک جھنڈا ہر ایک سردار کو دیا   ۔

1)      پہلا علم خالد بن ولید کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ اول طلیحہ بن خویلد اسدی ( کاہن تھا، پھر اسلام میں داخل ہوا، آخر زمانہ حیات نبوی میں مردود ہوکر مدعی نبوت بن بیٹھا)  پر چڑھائی کرو۔ جب اس مہم سے فارغ ہوجاؤ تو مقام بطاع کی طرف مالک بن نویرہ پر حملہ آور ہو۔

2)       دوسرا علم عکرمہ بن ابو جہل کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ یمامہ کی طرف مسلیمہ کذاب پر حملہ کرو۔

3)      تیسرا علم شرجیل بن حسنہ کو سپرد ہوکر عکرمہ کی امداد کرو اور یمامہ سے فارغ ہوکر حضرموت کی طرف بنو کندہ اور بنو قضا پر حملہ آوری کرو۔

4)       چوتھا علم خالد بن العاصی کو ملا اور حکم ہوا کہ تمام ملک شام کی سرحد پر پہنچ کر اس طرف کے قبائل کو درست کرو۔

5)       پانچواں علم عمروبن العاصی کو سپرد فرماکر حکم دیا کہ مرتدین بنو قضاہ کی طرف جاؤ ۔

6)       چھٹا علم حذیفہ بن محسن کو دےکر ملک عمان کی طرف جانے کا حکم دیا۔

7)       ساتواں علم عرفجہ بن ہرثمہ کو سپرد کرکے اہل مہرہ کی طرف جانے کا حکم دیا۔ حذیفہ  اور عرفجہ کو یہ بھی حکم ملا کہ دونوں ساتھ ساتھ رہیں۔

8)      آٹھواں علم طریفہ بن عاجز کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ بنو سلیم اور ان کے شریک حال بنو ہوازن کی طرف جاؤ۔

9)       نواں علم سوید بن مقرن کو دیا گیا اور ان کو حکم ملا کہ یمن ( تہامہ) کی جانب جاؤ۔

10)   دسواں علم  علاء بن الحضرمی کو دیا گیا اور حکم ہو کہ بحرین کی طرف جاؤ۔

11)   گیارہواں علم مہاجر بن ابی امیہ کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ صنعاء کی طرف جاؤ۔

یہ تمام سردار ماہ جمادی الاول سنہ 11 ھ میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر اور اپنے اپنے مقررہ علاقوں کی طرف جاکر مصروف عمل ہوۓ۔

طلیحہ اسدی :
حضرت خالد بن ولید نے بزاخہ کے میدان میں پہنچ کر لشکر طلیحہ (جس میں غطفان ،ہوازن، بنو عمار،بنو طے وغیرہ قبائل شامل ہو
ۓ تھے ) پر حملہ کیا، تو بہت سے مقتول، بہت سے مفرور اور بہت سے گرفتار ہوۓ ،بہت سے اسی وقت مسلمان ہوگۓ۔ تو طلیحہ مع اپنی بیوی کے گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں سے بھاگا اور ملک شام کی طرف جاکر قبیلہ قضاعہ میں مقیم ہوا۔ رفتہ رفتہ تمام قبائل مسلمان ہوۓ تو طلیحہ بھی مسلمان ہوکر حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں مدینے آکر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔( تاریخ اسلام ، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد اول250)

سجاح اور مالک بن نویرہ :

 جب وفات نبوی   کی خبر مشہور ہوئی بنو تمیم کے چند قبائل پر مشتمل ایک قبیلہ میں  قیس بن عاصم مرتد ہوگیا، مالک بن نویرہ نے بھی اس خبر کو سن کر مسرت کا اظہار کیا۔ خالد بن ولید بنو تمیم کے علاقے میں پہنچے تو مرتد  گرفتار و قتل کۓ گۓ، مالک بن نویرہ گرفتار ہوکر آیا تو  خالد بن ولید سے گفتگو کی تو اس کی زبان سے اثناء گفتگو میں کئی بار یہ نکلا کہ تمہارے صاحب نے ایسا فرمایا تھا، تمہارے صاحب کا ایسا حکم ہے وغیرہ اس تمہارے صاحب سے مراد آنحضرت ﷺ تھے،  یہ سنتے ہی حضرت ضرار بن الا زور  نے اس کا سر اڑادیا۔ ( طبری)

مسلیمہ کذاب :
جب آنحضرت کی ناسازی طبع کی خبر مشہور ہوئی تھی ، تو مسلیمہ نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ حضرت خالد بن ولید علاقہ بطاح ( بنوتمیم ) سے فارغ ہوکر مدینہ آۓ تو حضرت ابو بکر صدیق نے آپ کو  سرخ روئی کے ساتھ مہاجرین و انصار کا ایک لشکر دیکر مسلیمہ کذاب کی طرف روانہ فرمایا۔

 

جنگ یمامہ :  ( ماہ ذی الحجہ سنہ 11 ھ  )

 

حضرت خالد بن ولید  13 ہزار کے لشکر کے ساتھ شہر یمامہ  کے قریب پہنچے تو مسیلمہ شہر یمامہ سے نکل کر دروازہ شہر کے قریب ایک باغ ( حدیقتہ الرحمن) میں خیمہ زن ہوا۔ انھوں نے 40 ہزار کے لشکر جرار کو خالد بن ولید کے 13 ہزار مسلمانوں پر حملہ آور کیا۔مسلمانوں نے نہایت صبر و استقلال کے ساتھ اس حملہ ( جو سخت اور زلزلہ انداز تھا ) کو روکا اور پھر ہر طرف سے سمٹ کر اور اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر دشمنوں پر بھوکے شیروں کی طرح حملہ آور ہوۓ تو لشکر کذاب کے پاؤں اکھڑ گۓ اور بدحواسی کے عالم میں آورہ و فرار ہونے لگے۔ مسلمانوں نے ایسی چپقلش مردانہ دکھائی۔ ہر طرف سے مسلمانوں کو چیرہ دست دیکھ کر مسیلمہ باغ کے باہر چپکے سے جانے لگا تو اتفاقا دروازہ باغ کے قریب وحشی ( قاتل حمزہ رضی) کھڑا تھا اس نے اپنا حربہ پھینک مارا جو مسیلمہ کی دوہری زرہ کو کاٹ کر اس کے پیٹ کے باہر نکل گیا۔ آخر کار دشمنوں میں سے جس کو جس طرف راستہ ملا بھاگا۔ اس لڑائی میں دشمنوں کے 17 ہزار آدمی غازیان اسلام کے ہاتھ سے مقتول ہوۓ اور ایک ہزار سے کچھ زیادہ مسلمانوں کو درجہ شہادت حاصل ہوا۔ شہید ہونے والوں میں حفاظ کلام اللہ بہت سے تھے۔ 360 انصار اور 360 تابعین اس لڑائی میں شہید ہوۓ۔ ( تاریخ اسلام از مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی،جلد ١، 264)

 

حطم بن خبیعہ :

 بحرین میں  قبیلہ بنو بکر بن وائل مرتد ہوا تو حطم کو اپنا سردار بنایا۔  مرتدین کی بیگ کنی کے لۓ حضرت علاء بن الحضرمی نے غازیان اسلام کو لے کر ایک زبردست حملہ کیا ۔ حطم نے خندق کھددوائی تھی ایک مہینہ اسی حالت میں گزرگیا ۔ بہادران اسلام خندق کو عبور کرکے لشکر گاہ کفار میں داخل ہوگۓ ۔ قیس بن عاصم کے ہاتھ سے حطم مارا گیا، بہت مرتدین ہلاک ہوۓ، باقی بھاگ نکلے۔

 

لقیط بن مالک:

 آنحضرت کی وفات کا حال سن کر ملک عمان میں لقیط بن مالک نے نبوت کا دعوی کیا۔ تو  اہل عمان اور  اہل مہرہ مرتد ہوگۓ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق کے حکم سے لشکر اسلام میں عکرمہ بن ابی جہل مقدمتہ الجیش تھے، ممینہ میں حذیفہ اور میسرہ میں عرفجہ ، لقیط نے اسلامی لشکر کی خبر سن کر فوجیں فراہم کیا اور شہر دبا میں آکر ہر طرح سامان حرب سے مسلح ہوکر لشکر اسلام کے مقابلہ کو نکلا۔ نماز فجر کے وقت لڑائی شروع ہوئی۔ دشمن منہ موڑ کر بھاگے اور مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔ اس لڑائی میں 10 ہزار دشمن مقتول ہوۓاور چار ہزار گرفتار ہوکر مسلمانوں کی قید میں آۓ۔ اور چند دنوں میں عمان میں اسلام قائم ہوگیا۔ فاالحمدللہ علی ذالک۔

 

ردت مہرہ :

 مہرہ میں کچھ لوگ عمان ، قبیلہ عبدالقیس، ازد اور بنی سعد وغیرہ قبائل آباد تھےجو سب کے سب مرتد ہوگۓ تھے۔  حضرت عکرمہ نے مہرہ میں پہنچ کو ان کو اسلام کی دعوت دی ، ان میں سے ایک گروہ نے اسلام قبول کیااور دوسرے نے جس کا سردار مصیح تھا اسلام قبول کرنے سے انکار کیاتو عکرمہ نے گروہ مسلم کو اپنے ساتھ لے کر مرتدین پر حملہ کیا اور شکست فاش دیکر ان کے سردار کو قتل کردیا۔ اس فتح کا نواحی علاقوں پر خاص اثر پڑا اور تمام قبائل بخوشی اسلام میں داخل ہوگئے ۔

 

ردت یمن :

 اسود عنسی نے ملک یمن میں نبوت کا دعوی کرکے تمام ملک میں بدامنی پیدا کردی تھی لیکن وہ آنحضرت کے زمانہ حیات میں ہی مقتول ہوا تھا۔ لیکن آنحضرت کی وفات کی خبر  کے بعد یمن میں پھر وباۓ ارتداد پھیل گئی  مرتدین یمن کے دو مشہور سردار قیس بن مکشوح ، عمروبن معدی کرب سے  مہاجرین ابی امیہ کے لشکر اسلام کے ساتھ سخت معرکہ ہوا۔ بالآخر اسلام کو غلبہ حاصل ہوا۔ اور بہت سے مرتدین ہلاک و گرفتار اور بقیتہ السیف فرار کی عار گوارا کرنے پر مجبور ہوۓ۔  قیس و عمرو  کو  مدینہ منورہ میں حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو دونوں نے ارتداد سے پشیمانی اور بخوشی اسلام قبول کرنے کا اظہار کیا۔

 

ارتداد کا استیصال کامل :

 غرض  ایک سال سے کم مدت میں  حضرت ابوبکر صدیق ملک عرب کے فتنہ ارتداد پر پورے طور پر غالب آگۓ۔  کہ پتھر کے موم کی طرح پگھلنے اور فولاد کی رگیں کچے دھاگے کی طرح گسیختہ ہونے سے باز نہیں رہ سکتی تھیں۔ پہاڑوں سے زیادہ ہمتیں دریاؤں کے پانی کی طرح بہہ سکتی تھیں اور آسمان کی طرح بلندووسیع حوصلے تنگ و پست ہوکر تحت الثری کی گم نامیوں میں شامل ہوسکتے تھے لیکن وبستان محمدی کے تربیت یافتہ  صدیق اکبر کی ہمت و حوصلہ کا اندازہ کرو کہ تنہا اس تمام طوفان کے مقابلہ کو جس شوکت و شجاعت کے ساتھ میدان میں نکلا ہس ہم اس کی مثال میں شیرو نہنگ کا نام لے سکتے ہیں ، نہ رستم و اسفندیار کا نام زبان پر لاسکتے ہیں، شیرنیستاں اور رستم وستاں کے دلوں کو اگر صدیق اکبر کے دل کی طاقت کے 100 حصوں میں سے ایک حصہ بھی ملا ہوتا تو ہم کو کسی مثال تشبیہ کے تلاش و تجسس میں سرگرانی کی ضرورت نہ تھی لیکن اب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خیرالبشر کے شاگرد رشید خاتم النبین کے خلیفہ اول نے ٹھیک اپنے مرتبہ موافق ہمت و استقلال اور قوت قدسی کا اظہارکیا اور جس کام کو اسکندر یونانی Alexander of macedon , Greece 356bc) ) ، جولیس سیزررومی، کخیرو یارانی مل کر بھی پورا کرنے کی جرات نہیں کرسکتے تھے، صدیق اکبر نے چند مہینے میں اس کی بہ حسن و خوبی پورا کرکے دیکھایا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان گیارہ اسلامی لشکروں نے ہر طرف روانہ ہوکر ملک عرب سے فتنہ ارتداد کو مٹادیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیفتہ الرسول نے مدینہ میں بیٹھ کر شام و نجد سے مسقط و حضرموت تک اور خلیج و فارس سے یمن و عدن تک تمام براعظم کو تنہا اپنی تدبیر و راۓ سے چند مہینے کے اندر ہر ایک خس و خاشاک سے پاک و صاف کردیا۔ اس فتنہ کی ہمت شکن ابتداء میں کوئی متنفس صدیق اکبر کے سوا ایسا نہ تھا جو اس کی انتہا کو دیکھ سکتا ۔ اب تم غور کرو  اور سوچو آنحضرت کا جانشین اور آنحضرت کی قائم کی ہوئی سلطنت کا شہنشاہ صدیق اکبر کے سوا اور کون ہوسکتا تھا ؟   (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 269)

 


633ء
  / 12 ھ

 

روم وا یران کی طرف پیش قدمیاں:

 

جنگ ذات السلاسل : 

 

ہرمز ( ایک دلیر و جنگجو سردار جو حضیر ( ایرانی صوبہ) کا گورنر تھا جس کی دھاک تمام عرب و عراق اور ہندوستان تک تھی کیونکہ وہ جنگی بیڑہ لیکر ساحل ہندوستان پر حملہ آور ہواکرتا تھا) ، کو  حضرت خالد بن ولید نے اسلام کی دعوت دی تو اس نے خود فوجیں جمع کرکے حضرت خالد بن ولید کے مقابلہ کو بڑھا۔ حضرت خالد بن ولید مقام ابلہ میں 18 ہزار کا لشکر  ، لشکر ایران کے قریب پہنچا۔ حضرت خالد بن ولید نے میدان میں ہرمز کو مقابلہ کے لۓ طلب کیا۔ دونوں سردار گھوڑوں سے اتر کو پیادہ ہوگۓ۔ آپ نے اول وار کیا، ہرمز نے فورا پیچھے ہٹ کر پینترابدل کر وار چالی دیا اور پھر نہایت پھرتی سے آپ پر تلوار کا وار کیا، آپ نے فورا بیٹھک کے ساتھ آگے سمٹ کر اس کی کلائی تھام کر تلوار چھین لی۔ ہرمز تلوار چھنواتے ہی آپ کو لپٹ گیا اور کشتی کی نوبت پہنچی۔ آپ نے اس کی کمر پکڑ کر اٹھایا اور زمین پر اس زور سے پٹکا کہ وہ پھر وہ حرکت نہ کرسکا۔ اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور سرکاٹ کر پھینک دیا۔ اپنے سردار کو مغلوب دیکھ کر ایرانیوں نے حملہ کیا۔ جنگ مغلوبہ شروع ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں ایرانی میدان چھوڑکر بھاگ نکلے۔ بہت سے متول و مقید ہوۓ۔اس لڑائیی میں ایرانیوں کے ایک حصہ فوج نے اپنے پاؤں میں زنجیریں باندھ لی تھیں کہ عربوں کے مقابلہ پیش میدان جنگ سے نہ بھاگ سکیں مگر  پھر بھی ان کو زنجیر یں توڑ کر بھاگنا ہی پڑا۔ ان زنجیروں کی وجہ سے اس لڑائی کا نام ذات السلاسل مشہور ہوا۔

 

جنگ قارن : 

ہرمز کی  مدد کے لۓ ایک زبردست اور بہادر سردار قارن ایک بہادر فوج کے ساتھ روانہ ہوا تو اسلامی لشکر سے اس کی جنگ ہوئی قارن ،انوشجان اور قباد تینوں بڑے سردار مارے گۓاور ایرانی اپنی تین ہزار لاشیں میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگے، بھاگتے ہوۓ بہت سے نہر میں ڈوب کر مرے، بہت سے گرفتار ہوۓ۔

 

جنگ دلجہ :

 قارن کے مارے جانے کی خبر سن کر ردبار ایران سے اعذرگر ایک مشہور شہسوار ایک لشکر جرار کے ساتھ روانہ ہوا جو مدائن سے ہوکر مقام دلجہ میں پہنچا تھا کہ پیچھے سے بہمن جادویہ  کو بھی لشکر عظیم کے ساتھ مدائن سے روانہ کیا گیا تھا۔ مقام دلجہ میں پہنچ کر حضرت خالد نے لشکر ایران پر حملہ کیا۔ ایک خوں ریز جنگ کے بعد لشکر ایران کو شکست فاش حاصل ہوئی۔ ان کا سردار بھی شدت تشنگی سے میدان جنگ میں مر گیا۔

 

جنگ لیس : 

بہمن جادویہ مقام لیس میں پہنچا جہاں بھگوڑے بھی اس میں شامل ہوۓ تھے حضرت خالد نے مقام لیس میں خود ہی  کوچ کرگۓ اور لڑائی شروع کردی ۔ مالک بن قیس مقابلہ پر آتے ہی آپ نے اسے قتل کردیا، جنگ مغلوبہ شروع ہوئی اور  70 ہزار دشمن میدان  جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گۓ۔

 

فتح حیرہ :

 جنگ لیس کے بعد آپ نے حیرہ کا محاصرہ کیا،  تو شہر والے عاجز  ہوگۓ اور 2 لاکھ روپیہ خراج قبول کرکے صلح کرلی ۔ اور  آپ نے سرداران لشکر کو حیرہ کے اطراف و جوانب میں چھوٹے چھوٹے فوجی دستوں کے ساتھ روانہ کیا۔ ہر قبیلہ اور ہر ایک بستی نے جزیہ یا اسلام قبول کیااور اسطرح دجلہ تک کا تمام علاقہ حضرت خالد بن ولید کے ہاتھ پر فتح ہوگیا۔

 

قتح انبار /جنگ ذات العیون :

ایرانیوں نے انبار میں ایک لشکر عظیم فراہم کرکے شیر زاد والی ساباط کو سپہ سالار بنایا تھا۔  اس لشکر کی خبر سن کر آپ حیرہ سے انبار روانہ ہوۓ۔ شرزاد نے انبار کی فصیل کے باہر مٹی کا دمدمہ تیار کرلیا تھا ۔ آپ نے جب انبار کا محاصرہ کیا تو دمدمہ سے یک لخت تیروں کی بارش شروع ہوئی اور اسلامی لشکر میں ایک ہزار مجاہدین کی آنکھیں تیروں سے زخمی و بیکار ہوگئیں۔ آپ نے کمزور ناتواں اونٹوں کو ذبح کراکر خندق میں ڈال دیا اور خندق کو عبور کرکے دمدمہ پر قبضہ کیا اور فصیل شہر تک پہنچ کر خون کے دریا بہادیۓ۔ شہر پر مسلمانوں کا قبضہ دیکھ کر شیرزاد نے آپ کو پیغام صلح بھیجا،  چنانچہ  تین دن کی مہلت ملنے پر شیرزاد شہر چھوڑ کر نکل گیا اور آپ فاتحانہ شہر میں داخل ہوۓ۔

 

فتح عین التمر :

  آپکو انبار میں مقام عین التمر میں مہران بن بہرام کے 24 ہزار ایرانی لشکر ، عقبہ بن ابی عقبہ اہل عرب کے ایک اجتماع کے ساتھ بقصد قتال خیمہ زن ہونے کی خبر ہوئی تو آپ نے التمر کا قصد کیا ۔ عقبہ  میدان میں نکلا تو آپ نے اس کو فورا زندہ گرفتار کرلیا۔ عقبہ کے گرفتار ہوتے ہی عقبہ کا تمام لشکر بھاگ پڑا، بہت سے گرفتار ہوۓ۔ مہران بن بہران پر اس نظارے سے ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ قلعہ چھوڑ کر بلا مقابلہ فرار ہوگیا۔ عقبہ کی بھاگی ہوئی فوج نے ایرانیوں سے قلعہ خالی دیکھ کر فورا قلعہ میں داخل ہو کر دروازہ بند کرلیا۔ جس کا چار روز کے محاصرہ کے بعد قلعہ پر بھی اسلامی لشکر کا قبضہ ہوا۔ عیسائی عرب جو مجوسیوں کے ساتھ مل کر لڑرہے تھے، مقتول ہوۓ اور مال و اسباب پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 279)

 

فتح دومتہ الجندل ( بالائی عراق) :

 

جس زمانے میں حضرت خالد بن ولید نے عین التمر کو فتح کیا اس وقت حضرت عیاض بن غنم عرب کے مشرک و نصرانی قبائل کو زیر کرتے ہوۓ دومتہ الجندل کے حکمرانوں سے  برسرمقابلہ تھے۔ علاقہ دومتہ الجندل میں دو رئیس تھے۔ ایک " اکیدر بن عبدالملک اور دوسرا " جودی بن ربیعہ"  دونوں متحد ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ میں صف ارا تھے۔ عیاض بر غنم کا ایک خط عین التمر میں حالد بن ولید کے پاس پہنچا کہ ہماری مدر کو پہنچے۔ دشمن کی بڑی تعداد و قوت کا مقابلہ ہماری نہایت ہی قلیل جمعیت سے شاید نہ ہوسکے۔

        حضرت خالد بن ولید کی خبر سن کر اکیدر بر عبدالملک اپنے ہمنواؤں کو چھوڑ کر تنہا نکل کھڑا ہوا۔ لیکن مسلمانوں کو اس کے جدا ہونے کی خبر ملی اور اس کو ایک چھوٹے دستہ نے گرفتار کرنا چاہا لیکن وہ لڑ کر ہلاک ہوا۔ جودی بن ربیعہ جو عیسائی لشکر کا سپہ سالار اعظم تھا،  اپنے لشکر کے فورا دو حصے کرکے ایک عیاض بن غنم اور دوسرا حصہ خود لے کر حضرت خالد کے مقابلہ پر آیا۔خالد بن ولید نے صف سے آگے نکل کر میدان میں جودی سالار لشکر کو للکار ا اور اپنے مقابلہ پر طلب کیا۔ آپ نے اس کو فورا گرفتار کرلیا، تو اس کے ہمراہیوں نے یہ نظارہ دیکھ کر فورا بھاگنا شروع کردیا۔اتفاقا اسی وقت عیاض بن غنم نے اپنے مقابل عیسائیوں کو شکست دیکر بھگادیا۔دونو ں طرف کے گروپ بھاگ کو قلعہ میں داخل ہوۓ اور دروازہ بند کرلیا۔حضرت خالد نے قلعہ کا محاصرہ کرکے اہل قلعہ کے روبرو جودی کو قتل کو ڈالا اور قلعہ پر  دھاوا کرکے بزور شمشیر قلعہ پر قبضہ کرلیا جو مقابل ہوا اس کو قتل کردیا، جس نے امان طلب کی اس کو امان دیدی گئ۔( تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 280)

 

جنگ حصید :

اہل فارس نے جب یہ دیکھا کہ خالد بن ولید صوبہ حیرہ کو چھوڑ کر دومتہ الجندل کی طرف چلے گۓ تو انہوں نے حیرہ کو واپس لینے کی زبردست کوشش کی، وہی حیرہ کے عربی قبائل بھی اپنے سردار عقبہ بن عقبہ کے قتل کا معاوضہ لینے کے لیۓ ازسرنو جنگی تیاریاں فورا مکمل کرلیں ۔

      دربار ایران سے دونامی سردار " زرمہر" اور "روزیہ" لشکر عظیم لے کر روانہ ہوۓ۔ قعقاع بن عمرو ( جن کو حضرت خالد بن ولید نے حیرہ میں مقرر فرمایا تھا) نے حملہ اوری کا حال سن کر موجودہ مسلمانوں کی دو فوجیں بنائیں اور حیرہ سے روانہ ہوکر مقام حصید میں ایرانیوں سے جابھڑے۔بڑی خوں ریز جنگ ہوئی۔ ایرانیوں کے دونوں سردار اور نصف سے زیادہ فوج مسلمانوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئی۔ باقی مفرور ہوکر مقام خنافش کی طرف گئ ۔ جہاں ایرانیوں کا ایک زبردست سپہ سالار " بہبوذان" ایک زبردست فوج لئے  ہوۓ پڑا تھا،  لیکن جب اسلامی لشکر نے تعاقب کیا تو وہ مضیخ کی طرف چلاگیا جہاں ہذیل بن عمران مع دوسرے عرب سرادروں کی جمعیت کثیرہ لئے ہوئے  مسلمانوں کے مقابل پڑا ہوا تھا۔

 

جنگ مضیخ :

مضیخ میں پہلے ہی ربیعہ بن بحیر تغلبی مع بنو تغلب مقابلہ کے لیۓ موجود تھا۔ بھر حضرت خالد بن ولید بھی حیرہ آۓ اور لشکر کے تینوں فوجوں نے یک لخت حملہ کرکے دشمنوں کے جم غفیر کو تہہ تیغ کرنا شروع کیا۔ لیکن فرار ہذیل اور ربیعہ کا تعاقب کیا چنانچہ ربیعہ اور اس کے تمام ہمراہی مقتول یسیر میں عتاب بن اسید اور ہذیل دونوں مع اکثر ہمراہیوں کے مسلمانوں کے ہاتھ سے ہلاک ہوۓ۔( تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 282)

 

جنگ فراض : 

 دریاۓ فرات کے کنارے فراض میں حضرت خالد بن ولید نے لڑائی کی تمہید ڈالی۔ دوسری طرف رومی لشکر حیمہ زن تھا۔ جو تعداد میں آٹھ دس گنا زیادہ تھے۔لڑائی شروع ہوۓ، تمام دن ہنگامہ کارزار گرم رہا ۔ آخر کار  رومی لشکر کو شکست فاش نصیب ہوئی اور وہ میدان میں ایک لاکھ لاشیں چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگے۔  اس لڑائی سے فارغ ہوکر آپ 25 / ذیقغدہ سنہ 12 ھ کو چپکے سے مکہ میں حج بیت اللہ میں شریک ہوۓ تھے۔  

     آخر محرم سنہ 12 ھ سے ماہ ربیع الاول سنہ 13 ھ تک آپ علاقہ حیرہ میں رہے۔ اس قلیل مدت میں آپ نے قدم قدم پر دشمنوں کا مقابلہ کیا اور بیسیوں خونریز لڑائیاں لڑی، ہر ایک لڑائی میں ان کی فوج کم اور دشمن کی فوج کئی کئی گناہ ہوتی تھی ہر ایک لڑائی میں آپ کو فتح نصیب ہوئی۔ اور ایرانیوں کی مغرور اور دشمن قوم کے دل پر  ان کے قوت بازو اور عزم استقلال کی بدولت عربوں کی دھاک بیٹھ گئی۔ اس قلیل مدت میں انہوں نے  جس قدر وسیع ملک اور مختلف زبردست قبائل کو تسخیر کیا، اس کی نظیر تاریخ عالم میں بہ آسانی دستیاب نہیں ہوسکے گی۔اس معاملہ میں ہم مجبور ہیں کہ خالد بن ولید کی بے نظیر شجاعت اور قابلیت سپہ سالاری پر درودو سلام بھیجیں لیکن ان تمام خالدی کارناموں کی ایک روح ہے۔ اس روح کو بھی ہمیں تلاش کرلینا چاہیۓ، وہ روح انتخاب صدیقی، تربیت صدیقی اور ہدایت صدیقی میں مدینہ منورہ اور لشکر اسلام کے درمیان برابر سلسلہ خط و کتابت ہمیشہ جاری رہتا اور ہر ایک واقعہ کی خبر جلد از جلد خلیفہ رسول تک پہنچ جاتی تھی۔

 

جنگ یرموک  ( ملک شام کی فتح)  :   ( ربیع الاول / ربیع الثانی/ جمادی الثانی 13ھ) Battle of the Yarmuk

 

ماہ محرم سنہ 13 ھ کو صدیق اکبر نے چار لشکر مرتب فرماکر چار مختلف راستوں سے رونہ کیا کہ ملک شام پر حملہ اور ہوں ۔ 1) عمرو بن العاص فلسطین کے راستےسے     2)  یزید بن ابی سفیان   3) حضرت ابو عبیدہ بن الجراح حمص کی جانب  4) شرجیل بن حسنہ اردن کی جانب سے حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ جب یہ چاروں لشکر حدود شام میں پہنچے اور ہرقل کو اس کی اطلاع ملی کہ عربوں نے چار حصوں میں منقسیم ہوکر چار مقامات پر حملہ اوری کا قصد کیا ہے تو اس نے بھی اپنے چار سپہ سالاروں کو چار عظیم  الشان لشکر دیکر الگ الگ روانہ کیا۔ 1) اپنے حقیقی بھائی " تذارق " کو 90 ہزار فوج دیکر قلسطین، 2) جرجہ بن نوذر کو 40 ہزار فوج دیکر دمشق کی سمت، 3) راقص نامی سردار کو 50 ہزار فوج کے ساتھ  اردن کی جانب 4) رفیقار بن نسطورس کو 60 ہزار کی جمعیت کے ساتھ حمص کی طرف روانہ کیا۔ ہرقل نے اپنے چاروں سرداروں کے ماتحت دو لاکھ 40 ہزار فوج مسلمانوں کے مقابلہ کی غرض سے روانہ کی۔ حالانکہ مسلمانوں کے چاروں لشکروں کا مجموعہ 30 ہزار  کے قریب تھا۔

اسلامی لشکر حدود شام میں داخل ہوا تو ان کو معلوم ہو ا کہ ان کے مقابلہ پر اس سے آٹھ گناہ رومی فوج جو ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہے ، آرہی ہے  تو چاروں سرداروں نے اپنی فوجوں کو ایک جگہ یرموک میں جمع ہوۓ۔ ( جو اتفاقا صدیق اکبر کے فرمان کے عین مطابق ہوا۔) دوسری طرف حضرت خالد بن ولید کو حکم ہوا کہ صوبہ حیرہ میں اپنی جگہ مثنی بن حارثہ کو افسر بنا کر شام کی طرف چلے جاؤ اور وہاں تمام افواج اسلام کا اہتمام بہ حیثیت سپہ سالار اعظم اپنے ہاتھ میں لے لو ۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید 10 ہزار کا لشکر لیکر شام روانہ ہوۓ۔ ادھر ہرقل نے اسلامی لشکر کو دیکھ کر  اپنے چاروں سرداروں کو ایک جگہ جمع ہوکر مقابلہ کرنے کا حکم دیا جو چشمہ یرموک کے دوسرے جانب ایک بیضوی میدان میں حیمہ زن ہوۓ۔ ہرقل نے ہامان نامی سردار مع زبردست لشکر کو روانہ کیا۔ ماہ ربیع الاول سنہ 13 ھ میں آپ یرموک پہنچے۔ اور حالات کا معائنہ کیا۔  ان کو محسوس ہوا تھا کہ رومی لشکر متفقہ طور  پر صبح حملہ اور ہوگا۔ آپ نے رات ہی میں تمام لشکر اسلام ( تعداد 40 سے 46 ہزار تک تھی ) چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کرکے ان پر ایک تجربہ کار شخص کو مقرر کردیا۔

 

  رومی لشکر کی جانب سے اول 40 ہزار سواروں کے ایک لشکر نے حملہ کیا۔ آپ نے اپنے مٹھی بھر رفیقوں کے ساتھ آگے بڑھ کر اس لشکر کو بھگا دیا۔ اس کے بعد جرجہ بن ذید رومی سردار آگے بڑھ کر آپ سے بات کرنے کے لۓ  طلب کیا، آپ  اس کے پاس گۓ اس نے آپ کو اسلام کے متعلق کجھ سوالات کۓ۔ آپ نے ان کو  نہایت خوبی سے اسلام کی حقیقت سمجھائی، تو وہ اسی وقت مسلمان ہوکر تنہا آپ کےساتھ  لشکر میں  چلے آۓ اور رومی لشکر پر حمل آور ہوۓ اسی لڑائی میں جرجہ بن زید بہادری کے ساتھ لڑکر شہید ہوۓ۔ سخت حملہ شروع ہوا، اسلامی لشکر رومی لشکر میں بھوکے شیروں کی طرح گھس گئی۔ صبح سے شام تک شمشیر و خنجر اور تیرو سنان کا استعمال بڑی تیزی اور سرگرمی سے جاری رہا۔ ظہر و عصر کی نمازیں غازیان اسلام نے محض اشاروں سے میدان جنگ میں لڑتے ہوۓ پڑھیں ، آخر کار رومی دن بھر کی صعوبت کشی سے افسردہ ہو مضحمل ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ پر نہ جم سکے پیجھے ہٹے اور ہٹتے ہٹتے دامن کوہ میں پہنجے لیکن مسلمان ان کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے اور دھکیلتے ہوۓ گۓ۔ جب پیچھے ہٹنے اور بھاگنے کی جگہ نہ ملی تو ادھر ادھر کو پھوٹ پھوٹ کر ان کا سیلاب نکلا۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ بہت سے پانی میں ڈوب کر، بہت سے خندق میں گر کر ہلاک ہوۓ۔ ایک لاکھ 30 ہزار رومی لقمہ اجل ہوۓ۔ باقی اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے۔  اور لڑائی فتح  کی شکل میں ختم ہوئی، رومیوں کا سپہ سالار اعظم تذارق برادر ہرقل بھی مارا گیا۔ مسلمانوں کے تین ہزار بہادر شہید ہوۓ۔ (تاریخ اسلام ،  مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی 288)  

 

وفات صدیق اکبر :

 

حضرت صدیق اکبر شروع ماہ جمادی الثانی 13ھ بعارضہ تپ مبتلا ہوۓ تو آپ نے خلافت کے متعلق صاحب الراۓ لوگوں سے مشورہ لیکر  آخری خطبہ دیا   اور حضرت عمر فاروق کا انتخاب کرکے سب سے اقرار لیا۔ تحریر اور وصیت کی کاروائی کے عمل کے بعد 22 / 23 جمادی الثانی کی درمیانی شب بعد مغرب بعمر 63 سال آپ  کا انتقال ہوا۔ سوا دو سال آپ نے خلافت کی۔

 

634 ء     ( 24 اگست )


حضرت عمر
 دوسرے خلیفہ بنے ۔

  

No comments:

Post a Comment