حضرت آدم علیہ سلام سے حضرت عیسیٰ علیہ سلام






 ( مومنون  12-13 ) اور( اعراف ١٨٩ ) ( نسا ١)

 


اسلامک تاریخ دانوں کی بات کی جائے تو ان کا رشتہ مطالعہ قرآن کریم سے ہی ملتا ہے ، قرآن کریم تاریخ نہیں ہے اسطرح اسے کسی علم کی کتاب نہیں کہا جاسکتا  وہ تو کتاب ہدایت ہے جس کا مقصد انسان سازی ہے، مگر کتاب مقدس میں کتنے ہی علم و فنون کا سراغ ملتا ہے، الله نے اپنی ہدایات کے قطعی مستند ہونے کے سلسلے میں نفس و آفاق کی شہادتیں پیش کی ہیں اس کے ساتھ قرآن مجید نے اقوام گزشتہ ( قوم نوح ، عاد و ثمود ، قوم لوط ، بنی اسرائیل ) کی تاریخ اور واقعات کی طرف اشارے کے ہیں جو ہماری عبرت کے لئے پیش کے گئے ،

     قرآن حکیم نے " قصص " کا لفظ واقعات اور حقائق کے لئے استمال کیا ، اس کتاب عظیم نے انسان کے تصورات و نظریات کی دنیا ہی نہیں بدلی بلکی الفاظ اور اصطلاحات کو عظیم ترین تصورات کا حامل بنا دیا .

 

انسانوں کا نسب :

 

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَآئِكَـةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ۖ قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِيْـهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْـهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّـحُ بِحَـمْدِكَ وَنُـقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ اِنِّىْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 

( سورۃ البقرۃ  ٣٠ )

"اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں، فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔"

 

 

ابوالبشرحضرت آدم علیہ سلام :

(تخلیق آدم کا واقعیہ  سورت بقرہ ٣٠-٣٩ اور حضرت حوا کی پیدائش سورہ بقرہ ٣٥ ،نسا ١ ) ہابیل اور قابیل  کا واقعہ ( مائدہ ٢٨)اسکے بعد ہابیل کا بدل الله نے  پیغمبر شیث ( الله کا عطیہ ) عطا  کیا،جن پر ٥٠ صحیفے نازل ہوئے ،حضرت آدم کی اپنی وفات کے وقت حضرت شیث  کو نصیحت ، گھڑیوں کی پہچان ، اوقات کی عبادات ، بڑے طوفان کی پیشن گوئی ،ایک ہزار سالہ عمر کے بعد حضرت آدم کا انتقال ،حضرت شیث کے بعد انوش ، پھر  قینان ، مہلا نیل ،خنوخ ( حضرت ادریس ) ،( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ ١٢٤ )

 

حضرت ادریس علیہ سلام  :

قلم سے لکھنے والے دنیا کے پہلے شخص ، حضرت آدم اور شیث کے بعد نبوت ،آپ نے حضرت آدم کی زندگی کے تین  سو آٹھ سال دیکھے ،

 

حضرت نوح علیہ سلام : ( نوح بن لامک بن متو شلخ بن خنوخ ( ادریس ) بن یرد بن  مہلا نیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم )

 حضرت ادریس کے بات حضرت نوح نبی بنے ، یہ پہلے نبی ہے کے انکی شریعت نے حضرت آدم کی شریعت کو منسوخ کیا،انکی دعا سے کفّار و ملحدین عذاب الہی میں گرفتار ہوئے، سب سے پہلے آپ ہی نے نماز کے اوقات حکم خداوندی کے مطابق مقرر فرماے.( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٢٨) ،عید ین کے علاوہ ساری زندگی روزہ رکھتے تھے،حج کیا ،( تاریخ ابن کثیر حصّہ اول صفہ ١٤٩ )آپ کی پیدائش حضرت آدم کی وفات کے ١٢٦ سال بعد ہوئی .

 

طوفاں نوح علیہ سلام  : پانی کا یہ طوفان ١٥٠ دن تک رہا ، اس وقت نوح کی عمر ٦٠٠ سال سے متجاوز ہوکر دوسرے مہینے کے ستر دن کی تھی،جودی پہاڈ پر کشتی سے اتر کر آپ نے قربانی کی، رمضان کا مہینہ آیا تو آپ نے روزے رکھے اور طوفان کے بعد ٣٥٠ سال تک آپ زندہ رہے مطلب پورے ایک ہزار سال ، اور قرآن مجید( العنکبوت ١٤) کے مطابق ٩٥٠ سال ہے، (٩٥٠ سال نبوت کے بعد اور ٥٠ سال نبوت سے پہلے )

 

عرب : یہ چار طبقوں میں ہے

 ١) ارب عاربہ : عبیل، جدیس ، عبد ضخم ، عا د اولی ،ثمود ،عمالقہ،طسم ،امیم ،جرہم ،حضرموت .یہ سب لا وز ابن سام ابن نوح کی اولاد میں سے ہے.(جزیرہ نما عرب کے رہنے والے نہ تھے بلکی بابل کے تھے  )

٢) عرب مستعربہ: حمیر اور کہلان خاندان .اصلی عربی زبان، ١) یمنہ ٢) صبا یہ بنی اسرائیل ( کوش بن کنعان کی اولاد)

٣)عرب تبا بعہ : یمن شجر اور حضر موت کے بادشاہ کو تبع کہتے تھے ،(اس طبقہ کے مورث اعلی حضرت اسماعیل ہے)،بادشاہ عبد بن واثل بن الغوث کی اولاد میں سے ہے ،ملکہ بلقیس اس قوم سے ہے ،سب سے پہلے  حرث رائش نے١٢٥ سال  حکمت کی ،اسکے بعد اسکا بیٹا ابرہہ زالمنار(راستہ بتانے والا مینار بنایا تھا ) ١٨٠ سال بادشاہ رہا .اسکے بعد افریقشن بن ابرہہ ١٦٠ سال تک حکمت کی جب حضرت یشع  غالب آہے تھے .افریقه  پر حملہ اور ہوا تھا ،وہی سے نام افریقہ آیا .اسکے بعد اسکا بھائی عبد ابن ابریہ ٢٥ سال تک حکمت کرتا رہا یہ حضرت سلیمان بن داود کے زمانے میں اور کچھ پہلے تھا،اسکے بعد اسکی بیٹی ملکہ بلقیس( نام یلقمہ اور یشرح بن حرث بن قیس کی بیٹی )  ٧ سال تک تخت نشیں رہی ،حضرت سلیمان ٢٤ سال تک یمن پر حکمت کی ، ناشر النعم ،اسکے بعد اسکا بیٹا شمر مرعش( سمرقند ) ، اسکے بعد تبان بن اسعد ،یمن پر عبد کلال ،نجاشی کا یمن پر حملہ ( ٧٠ ہزار حبشیوں کے ساتھ جس کا جنرل ابرھتہ الاشرم تھا)  ، اصحاب فیل کا واقعیہ ، ابابیل کی آمد

٤)عرب مستعجمہ : تیسرے طبقہ کی اولاد میں سے ہے. ( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٣٠ )

 

قوم عا د :  عرب کا سب سے پہلا بادشا ں  عا د ابن ارم ابن سام (ارم یعنی ستونوں والے، لمبے اور زور والے  (سوره فجر ٦ ، حم سجدہ ١٥ )) تھا ، احقاف یمن عمان کے درمیان قوم تھی، اس کی ایک ہزار بیویا ں  تھیں اور چار ہزار بیٹے تھے ، بارہ سو سال عمر پائی،اس کے بعد تین بیٹے شداد ، شدید ، ارم نے حکمت کی.طوفاں نوح کے بعد سب سے پہلے بتوں(صمدا ،صمودا، وھرہ)   کے پجاری بنے

باغ ارم ( شداد کی جنت )

حضرت ہود علیہ سلام  ابن عبدالله بن رباح بن خلود بن عا د بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (یمن، اور پہلے عربی بولنے والے  ) :

 قوم عا د جب کفر و الحاد ( ہود :٥٣)  کو حد سے متجاوز ہوئے تو ان پر ٨ دن تک اندھی طوفاں چلی ، قوم عا د پرعذاب کے لئے دیکھیے قرآن (الاحقاف  ٢١، الزریت ٤١، النجم ٥٠، القمر ١٨ ، الحاقه ٦ الفجر ٦ ) ،( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ ١٥٥  ) ( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٣٤ )

قوم ثمود : ( ثمود بن عابربن ارم بن سام بن نوح ، ارب عاربه ، مقام ہجر(حجاز مقدس اور تبوک کے درمیاں )) 

حضرت صالح علیہ سلام  بن عبید بن ماسح بن عبید بن حاجر بن ثمود بن عابربن ارم بن سلام  بن نوح     : آپ ثمود ابن کا ثرابن ارم  کی طرف مبعوث ہوئے . ( بتوں کے نام ضر ، ضمور اور الہیہ ہے )پتھر کی چٹان سے انٹنی کا واقعہ (النمل ٥١ ، ہود ٦٦ ) قوم ثمود پر عذاب ( آسمان سے ایک چنگھا ڈ سخت تیز آواز آی جس سے روحیں خوف سے نکلنے لگی جسموں کے ڈھیر پڑھے تھے  ) کے لئے دیکھئے قرآن  النمل ٤٥ ،حم سجدہ ١٧، القمر ٢٣ ، الشمس ١١ ) ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ ١٧٣  )

نوٹ :

حضرت ابراہیم علیہ سلام  کا فرعون :ابن اشل بن عبیدا بن عو ج ابن عملیق

حضرت یوسف علیہ سلام  کا فرعون : ریان ابن ولید ابن ثوران

حضرت موسیٰ علیہ سلام  کا فرعون : ولید ابن مصعب بن ابی اہوان بن ہوان ( یا قابوس بن  مصعب بن معاویہ بن نمیر بن سلوان ابن فاران)

 

کنعان بن کوش ابن ھام بن نوح :

بابل کو بسایا اور سب سے پہلے بادشاہت حکمت و سلطنت کی بنیاد ڈالی ،  اسکے بعد  بہت بڑا عظیم الشان بادشاہ نمرود ( اپنی سلطنت ٤٠٠ سال چلائی )  نامی اسکا بیٹا تخت پر بیٹھا اور جس نے دین سابیہ اختیار کیا .اور سام کی اولاد خالص موحد تھی،

بابل ، موصل و نینوی کے حکمران : کنعان کے بعد نمرود ،موصل بن جرموق کا بابل پر قبضہ ،اسکے بعد سنجار بن اثور بن نینوی بن اثور  حکمرہ بنا .جسنے بنی اسرئیل  سے جنگ کی ،یہود نے اسے بیت المقدس میں پھانسی پر لٹکا دیا.سنجارف کے بعد اسکا بھائی سطرون جزیرہ کا بادشاہ بنا .حضرت یونس بن معنی اسی کی طرف معبوث ہوئے تھے .( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٩١ )

حضرت یونس بن متی جرامقہ میں سے بنیامین بن اسرائیل کی اولاد میں سے ہے .زان بن ساطرون آپ پر ایمان لایا .اسکے بعد بخت نصر کا بیت المقدس پر حملہ .

 

کنعان بن حام کی قبطی اولاد : مصر بن بنصر ،ابوالاقباط بن مصر ،شداد بن مدار ، اشمون بن قبط ،اسکے بعد موسیٰ کا فرعون ( خرطیش)سب سے پہلا فرعون ،جیرون ،عمالقہ ، اطفیر( حضرت یوسف نے اسکی وزارت کی تھی)، اسکے بعد اسکا بیٹا معد انوس بن دارم (رہبانیت کی بنیاد) تخت پر بیٹھا اسکے بعد کاشم تخت نشن  ہوا، 

حضرت ابراہیم علیہ سلام  :( ابن ناخور بن ساروغ  بن ارگو ابن فا نع بن عامر بن شالخ بن ارقحشذ بن سام بن نوح )

آپ پر بس صحیفے نازل ہوئے تھے ، مہمان نوازی( ابوالضیفان –مہمانوں کے باپ )   کی رسم آپ ہی کی دیں ہے ، آپ ہی نے ٩٩ سال کی عمر میں ختنہ کی، پانی سے استنجا کیا ، مسواک کی اور ناک کو پانی سے صاف کیا ، مصاحفہ  اور معانقہ آپ ہی موجد ہے ،پاجامہ بھی آپ نے با الہام ربانی سب سے پہلے بنایا ، ایمان کی حفاظت ، ہجرت آپ ہی سے ہے،

تارح ( ازر ) کے تین بیٹے ابراہیم علیہ سلام  ،ناحور اور ا ہران( ہاران)( انکے بیٹے حضرت لوط علیہ سلام  )  تھے ،

(حضرت ابراہیم علیہ سلام  کا تدبر تفکر(الانعام ٧٨ )  ، توحید ، بتوں کو توڑنا پھر آپ پر الزام ،نمرود کے ساتھ مناظرہ (البقرہ ٢٥٨) نمرود کا آگ میں ڈالنا واقعیات دیکھئے قرآن سورت انبیاء ٥١  سے ٧٢ )

نمرود کا آگ میں ڈالنا ، آگ کا ٹھنڈی ہونا، نمرود کا اونچی عمارت بنانا،نمرود کا ایمان نہ قبول کرنا لیکن چار ہزار گایوں کی قربانی دینا ، حضرت ابراہیم پرکنعان کے بعد مصر ہجرت کا حکم ( اہل بیت  ساتھ )،مصر کے فرعون ( سنان بن علوان ، ضحاک کا بھائی ) کا حضرت سارہ کی گرفتاری ،کنعان  واپسی  مقام خلیل  قیام ( عبرانیوں کے مطابق ا یلیا) ، حضرت لوط کی علیحدگی ،حضرت سارہ کا حضرت ابراہیم سے حضرت ہاجرہ سے نکاح کی اجازت،حضرت ہاجرہ علیہ سلام  سے حضرت اسماعیل ذبح الله   علیہ سلام  پیدا ہوئے ،حضرت ہاجرہ علیہ سلام  کا مکّہ کی روانگی،صفا سے مروہ پانی کی تلاش ،مقام حجر ، اسماعیل علیہ سلام  کا  زمیں پر پیر مارنا ، زمزم کےچشمےکا  کرشمہ،بنی جرہم کی آمد ، مقام حجر حضرت ہاجرہ کا انتقال ،حضرت ابرھیم علیہ سلام  کا بی بی ہاجرہ  کو مکہ پہنچانا کر شام کو واپس ہوکر بیت المقدس مقیم ہونا ،حضرت ابرھیم علیہ سلام  اور ملائکہ کی دعوت ، وہی فرشتے الله نے حضرت لوط ( حضرت ابراہیم کے بھتیجے ) کی قوم پر عذاب کے لئے بھیجا تھا (ہود ٧٠)، وہی حضرت ابراہیم سو سال حضرت سارہ نوے سال کو حضرت اسحاق علیہ سلام  کی بشارت) الصفت ١١٢) ، بیت الله ( بیت عتیق ) بنانے کا حکم  (حج ٢٢٦)،حجر اسود مقام رکن پر نسب ،حج کا اعلان ، قربانی، طواف،  پھر خواب (وحی)  کے  ذریعہ حکم قربانی(سورہ الصفت  ٩٩ تا ١١٣ )،   ،١٢٧ سال کی عمر میں بی بی سارہ کی وفات کنعان  ،١٧٥  سال کی عمر میں حضرت ابراہیم علیہ سلام  کا مقام خلیل(فلسطین) انتقال ،حضرت  اسحاق کی  ر فقا بنت بنوئل بن نا حور بن ازر سے نکاح ،١٣٠ سال عمر انتقال فرمایا .( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٥٨   )

 

قوم لوط : حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہ سلام  کے علاقے سے انکے حکم سے ملک غور زغر کے سدو م  شہر میں آباد ہوئے تھے ، جہاں کے لوگ سب سے زیادہ فاجر  فاسق اور بدترین کافر تھے انہونے دنیا میں ایسا ( عورتوں کو چھوڈ کر مردوں سے برائی کرتے تھے) گناہ ایجاد کیا جو کبھی نہیں ہوا تھا پھر الله کا عذاب آیا پوری بستی الٹ دی گئی ، پتھروں کی بارش ، ( سورت اعراف٨٠  ، ہود ٦٩، شعرا  ١٦٠ عنکبوت ٢٨ ، صافات ١٣٣  ) ، الله نے اس پورے علاقے کو ہمیشہ کے لئے ٹھاٹھے مارتا بدبودار سمندر بنادیا جو حقیقت میں ان لوطیوں  پر آگ بھڑک رہی ہے اب وہ زمیں والوں کے لئے عبرت کا نمونہ ہے ،( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ ٢٣٨  )

اہل مدین: ( قبیلہ بن مدین بن مدیان بن ابراہیم خلیل الله )

 اہل مدین خالص عرب قوم تھی ، مدین شام کے اطراف ہے ، اہلے مدین قوم لوط کے کچھ سال بعد ہوئی ، ان کے پیغمبر حضرت شعیب علیہ سلام  ہے ، یہ لوگ سریانی زبان بولتے تھے ، یہ وہ لوگ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ سلام  کے آگ میں ڈالنے کے بعد  شام کی طرف ہجرت کیے تھے. یہ لوگ کفار تھے لوگوں کو لوٹتے تھے ، ایکہ درخت کی پرستش کرتے تھے ، ناپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے ،  ( سورت اعراف ٨٥ ) تین طرح کے عذاب کا ذکر ان پر آیا ہے ، زمینی بھونچال ،چنگھاڑ ( سوره ہود ٨٧) ، آگ کے بادل ( سورہ شعرا ١٨٥ ) تفسیر یہ کے پہلے ان پر سخت گرمی مسلط ، سات دن پھر ان پر ہوا بند، ہوا کے لئے یہ جنگل میں پہنچے وہاں ن پر بادلوں کا سایہ آیا جب تمام افراد اسکے نیچے آگئے تو الله نے ان پر آگ کے بھڑکتے شعلے برسایے ، اسوقت زمیں میں زلزلے ، پھر آسمان سے یل چیخ آیی جو سب کی روحوں کو نکال دیا اور سب اوندھے گرے پڑھے رہ گئے . ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ ٢٤٨  )  

خطیب الانبیاہ حضرت شعیب علیہ سلام  (آپ کا نام تیرون تھا ضیعون بن عنفا بن ثابت بن مدین بن ابراھیم کے لڑکے تھے )   :

آپ کا تعلق عرب با ندہ بنی ارقحشد ہے جن کے مشہور قبانل جرہم ،حضور ، حضر موت اور سلف ہے .حضور دیار رس میں رہتے تھے اور اہل کفر اور بت پرست تھے .حضرت  شعیب بنی بن زی مہرع کی طرف مبعوث ہوئے.آپ اہل مدین اور اصحاب ایکہ اور اہل رس کی طرف مبعوث ہوئے ، قرآن (الا عراف ٨٨ اور ہود ٩١)  کے مطابق ان پر آگ کا عذاب آیا .( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ٤١  )

حضرت یوسف علیہ سلام  :

حضرت اسحاق علیہ سلام  ١٨٠ سال کی عمر میں انتقال کر گئے ، اور حضرت یعقوب علیہ سلام  ( اسرائیل ) اپنے باپ کے قائم مقام (یروشلم بیت المقدس ) بن گئے ، حضرت یعقوب علیہ سلام  کے بیٹوں نے اپنے بھائی یوسف کو کنوے میں ڈال دیا ،عزیز مصر( طفیربن رحیب اور فرعون مصر ریان بن ولید دومع )  سے عربوں نے خرید لیا .پھر زلیخا کے ساتھ واقعہ پیش آنے قید میں رہے ،پھر قیدیوں کے خواب کی تعبیر اور ملکی انتظامات آپ کے سپرد ،وزارت کے متولی ،زلیخا سے نکاح ، بھائیو ن سے ملاقات .(سوره یوسف )

حضرت یوسف علیہ سلام  اور حضرت یعقوب علیہ سلام  کی جدائی  کے زمانہ کو ٨٠ سال بتایا گیا جس میں ١٧ سال کی عمر میں کنوین میں ڈالنا اور ٥٧ برس کی عمر میں ٨٠ برس کے بعد اپنے والد سے ملے اسکے بعد ٣٠ سال زندہ رہ کر ١٢٠ سال کی عمر میں انتقال فرمایا .آپ کو دریاۓ نیل کے کسی حصّے میں دفن کردیا گیا ،آپ کی وصیت کے مطابق حضرت موسیٰ نے  مصر سے تابوت نکال لیا تھا .

ان دنوں مصر کی فرعونیت عمالقہ کے خاندان میں تھی  ریان بن ولید دومع  مصر کا فرعون تھا جو حضرت یوسف پر ایمان لایا تھا اور انتقال کر گیا، بعد قابوس بن مصعب مصر کا فرعون بنا اور یہی حضرت موسیٰ کے دور کا فرعون تھا ، جس کی ٤٠٠ سال عمر تھی (دلیل قرآن المومن ٣٤ ) واللہ ا علم .

حضرت لوط علیہ سلام  : قوم کی ہلاکت(  وجہ لواطت، ہود ٧٢  ) کے بعد آپ فلسطین چچا حضرت ابراہیم کے پاس آگے تھے ،

حضرت ایوب علیہ سلام  : ( ایوب بن موص  بن رازح بن العیص  بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل )

آپ رومی تھے ، آپ حضرت ابراہیم علیہ سلام  کی آل میں سے ہیں ( انعام ١٨٤ ) آپ بہت مالدار ، مویشی، غلام، زمینیں والے تھے ، جو سرزمیں حوران  می ثنیہ مقام پر تھیں ، پھر آپ سے یہ سب چھین لیا گیا ، اور طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہو گیں آپ کو بنی اسرائیل کے ایک کوڈے  کے ڈھیر پر ان کو ڈالدیا گیا تھا سات سال ، آپ کے جسم میں کیڈ ے ہوگے تھے ، آپ کی بیوی آپ کی خدمات کرتی تھی . آپ بڑے صابر ، ذکر کرنے والے ہوئے، آپ کی اہلیہ کا آپ کو کھانا لانے کے لئے سر منڈا نے پر  پھر آپ کی دعا (انبیا ٨٣ )  اور اپنا سر جب تک نہ اٹھایا تب تک کے آپ  تمام بیماریوں سے نجات پا گئے ،آپ پر اللہ نے سونے کی ٹڈیاں برسائی گی،( انبیا ٨٤، ص ٤٤  ) حضرت ایوب علیہ سلام  کے بعد معاملات آپکے فرزند بشر بن ایوب ہوئے، جو شاید  ذوا لکفل علیہ سلام  ہے و اللہ ا علم  ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ ٢٩٥  )  

ذوا لکفل علیہ سلام : قرآن  ( الانبیا  ٨٥ اور ص ٤٥ ) آپ حضرت یسح کے خلیفہ تھے ،

نزول تورات ( حضرت موسیٰ علیہ سلام )   سے پہلے کی امتیں :

اصحاب الرس ( کنویں والے )  : ( ثمود کی بستیوں میں سے ایک بستی والے تھے جن پر حتطلہ بن صفوان علیہ سلام  نامی پیغمبر مبعوث ہوئے قوم نے نافرمانی میں آپ کو قتل کرکے کنوے میں ڈالدیا اور ڈھانک دیا تھا ، عذاب نازل ہوا اور تمام نیست و نابود وہلاک ہوگئے،   ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ  ٣٠٠  )  

قوم یس : ( سورت یسن ١٣-٢٩)

بستی انطاکیہ میں ایک بادشاہ انطیخس  تھا ، جو بتوں کا پجاری تھا ، جس کی طرف الله نے تین پیغمبر ( صادق مصدوق ، شلوم ) بھیجے تھے جن کو انہونے جھٹلایا تھا .، تبھی ایک شخص( شہید حبیب بن امری )  دوڈ تا  آیا اور ایمان کی تصدق کی اور دعوت دینے لگا کی اس قوم کے لوگوں نے اس مومن کومارڈالا  اور پھر ان پر عذاب آگیا ایک چنگھاڑ جس سے وہ نا گہاں بجھے  رہ گئے .   الله نے انتقام بڑے لشکر نہ اتارکر ایک چنگھاڑسے لے لیا ،یعنی حضرت جبریل کی ایک چیخ اور تمام روحیں جسموں سے الگ ،پورے شہر میں سناٹا ،کوئی آنکھ بھی با خبر نہ رہی جو اپنے کرتوتوں کا حشر دیکھ لیتی . الله اکبر ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ  ٣٠٣   )  

حضرت یونس علیہ سلام : سرزمین موصل میں اہل نینوی  کی طرف بھیجا گیا تھا ، یہ وہ بستی ( ایک لاکھ تیس ہزار افراد ) تھی جو حضرت یونس کی دعوت کو ٹھکرا کرپھر واپس ا یمان سے سرفراز ہوئی( اللہ نے انکو توبہ کی توفیق دی)  اور رسوائی کے عذاب کو دنیوی  زندگی میں دور کردیا گیا ( یونس ٩٨) ( دعوت الہی سے انکار کے سبب حضرت یونس غم و غصّہ سے لبریز روٹھ کر تین دن قہر الہی کا وقت دیتے ہوئے چل دے تھے (القلم ٤٨ ) ) آپ کا مچھلی کے نگلنے کا واقعیہ ( الانبیا ٨٧ ) ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ  ٣٠٩  )  

حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ سلام :

حضرت موسیٰ عمران ابن قاہت بن عازر بن لادی بن یعقوب بن اسحاق  بن ابراہیم علیہ سلام  کے بیٹے تھے والدہ کا نا م  "یوحاند "تھی . فرعون  کا ظلم، اور مصرکا تختہ الٹنے کا ڈر ، لڑکوں کا قتل (سورہ زمر ٢٥) موسیٰ علیہ سلام  کا صندوق پانی میں ( قصص ٧ تا ٩ ) صندوق کا حضرت آسیہ بنت مزاحم ابن عبید بن الریان بن الولید ( جو حضرت یوسف کے زمانے کے مسلم بادشاہ ریان کی پوتی ) کا کھولنا اور اپ کی پرورش ( طہ ٣٧ ) ،ایک مصری کی ایک تھاپ میں ماردینا ( القصص ١٤ تا ١٧ )،مصر سے مدین  کا سفر ، موسیٰ علیہ سلام  کی ٤٠ سال میں  حضرت شعیب بن نوفل بن عیقا بن مدین علیہ سلام  کی لڑکی صفورا سے نکاح اور مزدوری ( القصص ٢٥ ) ،اپنے خسر شعیب کے یہاں قیام ٨٠ سال عمر عبادت کے بعد وحی ،آپ کے بھائی ہارون پر ٨٣ عمر میں نازل ہی ،اسکے بعد الله نے فرعون کی طرف بھیجا کے ( العشرا) وہ بنی اسرایل کو قبطی حکومت اور فرعون کے مظالم سے نجات دلا کر ارض مقدس کی طرف لے جائے .حضرت موسی علیہ سلام  کا عصا ، جادوگروں کا جمع ہونا ، انکا ایمان لانا (العشرا٤٨ ) ،  ہامان کا فرعون کو بہکانا ،بی بی آسیہ پر تشدد اورانتقال (التحریم ١) بنی اسرائیل پر تشدد ، ہجرت کا حکم،بنی اسرائیل چھ لاکھ کی تعداد میں دریا کنارے پہنچ گئے ، فرعون کا غرق ہونا اور موسیٰ علیہ سلام  کا کوہ طور  پر الله کا کلام کرنا ،روزے رکھنا، بنی اسرائیل کا آگ میں زیور ڈالنا اور سامری جادوگر کوئی چیز ڈالنا جس سے وہ  گنوسالہ بن گی اسکی عبادت کرنا ،موسیٰ  کا ہارون کو ڈاٹنا ،خسر شعیب حضرت صفورا اور دونوں بیٹے موسیٰ سے ملاقات .بنی  اسرائیل کی شام روانگی ،بنی اسرائیل کا بیت المقدس جانے سے انکار (کنعانیوں اور عمالقہ کی سطوت کی کیفیت سن کر(الما ند ٢١-٢٢ )چالیس سال زمین مقدس حرام ہوئی (الما ند٢٦ )) دھوپ کی شکایات البقرہ (٥٧ )، من (روٹی)سلویٰ (ایک قسم کے پرندے کے کباب)،پتھر سے بارہ چشمے ، حضرت ہارون کا ١٢٣ سال کی عمر میں مصر سے نکلنے کے چالیسویں سال انتقال ، بنی اسرائیل کی بدکاری اور طاعون کی بیماری کا عذاب ٢٤ ہزار کی موت ،٤٠ سال کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے بیٹے عیزاز (عزیز) کا ارض مقدس میں داخلہ ،قارون بن یصیر بن قاہیت کا زکات نہ نکالنے اور آپ پر زنا کا الزام لگانے پر زمیں میں دھسنے کا واقعہ ،حضرت موسیٰ وحضرت یوشع کا حضرت خضر سے ملاقات (الکہف ٧٥)١٢٠ سال کی عمر میں حضرت موسیٰ کا انتقال اور حضرت یوشع سے عہد ، حضرت یوشع و بنی  اسرائیل  کا شام پر قبضہ ، حضرت یوشع انتقال(عمر ١٢٠سال ) اور فتح کی تکمیل کے بعد بنی اسرائیل کا شریعت کی پابندی چھوڑنا ،٣٠٠ سال کے بعد حضرت طالوت اور پھر حضرت داود کا پیدا ہونا  .( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ١١٤ )

حضرت الیاس بن العازر بن العیز اربن ہارون بن عمران علیہ سلام    : ( الصافات ١٢٣ تا ١٣٢ )

آپ کو اہل بعلبک کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور بعلبک دمشق کے غربی جہت کا ایک شہر ہے، یہ قوم بت بعل  کی پوجا کرتی تھی ، آپ نے اپنی قوم میں دعوت دی ، کافروں نے آپ کی تکذیب اور مخالفت کی قتل کی ٹھان لی، تو آپ ایک غار میں چھپ گئے دس سال کے بعد جب وو بادشاہ ہلاک ہوا تو دوسرا بادشاہ بنا حضرت الیاس نے اسکو دعوت اسلام دی اور وہ سب  مسلمان ہو گئے  . ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ  ٤٤٢   )  

حضرت حزقیل علیہ سلام : ( البقرہ ٢٤٣ )

جب الله نے حضرت یوشیع علیہ سلام  کے بعد حضرت کالب بن یوفنا کو بھی اپنے پاس بلا لیا تو بنی اسرائیل میں ان کا خلیفہ حضرت  حزقیل بن بوزی کو نامزد فرمایا آپ ضعیف بڑھیا کے بیٹے تھے آپ ہی نے اس قوم کو زندہ ہوجانے کے لئے دعا کی تھی ، یہ ایک بستی تھی جس کو درا ور دان  کہا جاتا تھا ہے واسط شہر سے پہلے واقع تھی اس میں طاعون کی وبا پھیل گی تھی، ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ  ٤٤٨   )  

حضرت یسع اسباط  بن عدی بن شوتلم بن افرائیم بن یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل علیہ سلام:

حضرت الیاس کے بعد حضرت یسع تھے ،  ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ  ٤٥١    )

حضرت شمویل  (اشمویل بن بالی بن علقمتہ بن الیہوبن تہوبن صوف بن علقمتہ بن ماحث بن صابن عزریا)       : 

بنی اسرائیل کا نظام درہم برہم ہونا، جرائم کا بڑھنا ، انبیا کا قتل کرنا پر الله نے ان پر ظالم جابر بادشاہ کا  مسلط کرنا ، جنگ کی سورت میں انکے ساتھ وہ تابوت میثاق ہوتا تھا جس میں قبتہ الزمان رہتا تھا جس کو اس وقت چھین لیا گیا جب اہل غزہ ہے اہل عسقلان میں جنگ ہوئی.جس کی خبر سن کر بادشاہ مر گیا، بنی اسرائیل کی درخوست پر حضرت یوشع  بن نون علیہ سلام  کی وفات کے چار سو ساتٹھ  سال بعد الله کا حضرت شمویل   کو پیغمبر بنا کر بھیجنا . ( تاریخ ابن کثیر  حصہ ١، صفہ  ٤٥٢     )

حضرت داود علیہ سلام : ( داود بن ایشا بن عوعید بن عابربن سلمون بن نحشون بن عوینادب بن ارم بن حصر ون بن فارص بن یہوزا بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل ) 

(نبوت اور حکومت دونوں کے مالک ،٩٩ بیبیاں )(لوہا نرم ، سریلی آواز، پہا ڈ اور پرندے تابع، ایک دن آ ڈ  روزہ ، نماز کے پابند ، صاحب زبور    )(انبیا ٧٩ ، السبا ١٠)

حضرت شمسون بن مانوح کا بنی فلسطینو ں سے  بنی اسرائیل پر سے ٤٠ سال قبضہ کو ہٹھانا ،مخانل بن راعیل کا حاکیم ہونا، حضرت شمویل بن القنا(بن دحام بن یھوذ بن یوحا بن القا بن قارون )  کا بنی اسرائیل کی بت پرستی پر نبوت ، حضرت شمویل کی طالوت (شاول بن قیس بن انمار بن ضرار بن یحرف بن یفتح بن ایش بن بنیامین بن یعقوب بن اسحاق ) کے حق میں  حاکم بننے کی  دعا ، اور جہاد کا حکم ( البقرہ ٢٤٧ )، طالوت کا تین لاکھ بنی اسرائیل کے ساتھ بنی فلسطین پر حملہ اور غلبہ ،حضرت شمویل کی طالوت سے وحی کے بنا پرعلیحدگی(عمالقہ کے بادشاہ اعاع کی التجا پر اسکو چھوڑنااور طالوت کی روحانی قوت چھین لینا ) ، حضرت شمویل کا  وحی الہی سے کمسن حضرت داود کو نانب بنانا ، طالوت بنی اسرائیل اور جالوت بنی فلسطین کے درمیان جنگ ( حضرت داود کا اپنی غلیل کے پتھر سے جالوت کی موت )طالوت کا حضرت داود (٣٠ عمر ) سے اپنی بیٹی سے نکاح اور اصلحہ خانہ کا انچارج بنانا . حضرت داود بنی کنعان ،مواب ،عمون ،اہل روم ،دمشق ،حلب پر قبضہ کیا اور جزیے وصول کیے .زبور کا نزول  ( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ١٢٥  )

حضرت سلیمان علیہ سلام :(یعقوب ، یہوزا ، بارص، حظرون،رام،عمیناداب، نخشون،سلمون، افضا ن، عو فیذ، ایشا،داود، سلیمان )   

حضرت داود علیہ سلام  بیت المقدس بنانے کی وصیت کرکے انتقال( مدفن بیت اللحم ) اور اپنے بیٹے سلیمان (٢٢ سال عمر ) کو تخت حکومت پر بیٹھایا ،اس وقت  نبیوں میں حجان ( نامانع) اور کاد اور اصاف تھے . حضرت سلیمان کی بیویوں میں  فرعون کی بیٹی بھی بیوی تھی، بیت المقدس کی تعمیر ،تقرب الی الله میں ٢٢ ہزار گایوں کی قربانی ،حج ،ہند کی جانب آپ کی کشتیاں ، ہدہد کے ساتھ گفتگو،ملکہ بلقیس کی خبر اور واقعہ  ( النمل ٢١ )  حضرت الیاس بن شویاق اور الیسح بن شویوات  انبیاء ،حضرت سلیمان کا انتقال بن اسرائیل میں تفرقہ ،رجعم بن سلیمان کا حاکم ہونا،افیاز بن رجعم، اسا بن افیاض ،یہو شا فاط  بن اسا ، (حضرت الیاس بن شویاق اور الیسح بن شویوات  انبیاء) یہورام کی حکومت ( اس زمانے میں حضرت عبود) ، احزیا ہو کی حکومت ،یواش  بن احزیا بت پرستی پر مائل ،حضرت ذکریا( بن ارن حضرت داود بن سلیمان ) کے منا کرنے پر شہید کیا (حضرت زکریا کا ایشاع بنت عمران بن ماثان سے نکاح ہوا تھا ،جو حضرت مریم کی بہن تھی ) ہیردوس بادشاہ نے اپنی محبوبہ کی ترغیب سے حضرت یحییٰ کو ذبح کر ڈالا تھا اوریہ سن کر حضرت زکریا بیت المقدس کے ایک باغ میں ایک درخت کے تنے میں چھپ گئے تھے کے شیطان نے ہیردوس بادشاہ کے آدمیوں کو خبر کردی اور شہید کردیے گئے .(اس زمانے حضرت الیسح، حضرت عوفریا حضرت زکریا نبی تھے ) شمسی سنہ کی ایجاد ، بابل میں بخت نصر اول ، روم میں فردوس کی حکومت ، حضرت یوشع ،حضرت غوریا ،حضرت اموص ، حضرت اشیعا  اور حضرت یونس( حضرت یونس بن متی شریعت موسوی کے پابند اور اہل نینوی( سرزمین موصل) کی طرف معبوث ہوئے)

                 یوآب بن عزیا ہو متقی بادشاہ کی حکومت (حضرت یوشع اور حضرت عوف اسی کے زمانے میں تھے )  خرکیا بن احاز کی حکومت ، سنجاریف  کا بیت المقدس پر حملہ اور حضرت شعیا کی دعا ،لشکر میں طاعون ،منشا بن خرقیا ہو بدمذهب کا حضرت  اشعیا کو ارے سے کٹوانا، اس کے بعد یوشیا بن آمون نیک دل بادشاہ بنا ( حضرت صقونا، حضرت کلدی اور حضرت ناحوم نبی تھے، اس کے دور میں بنی ہارون میں حضرت ارمیا بن الحیا کو نبوت دی گی )

بخت نصربن بنو زراذون کو نمرود بن کوش بن حام (بروایت طبری )یا بخت نصر بن  نبو زرازون بن سنجاریف حاکم موصل  :

بنی اسرائیل نے الیا قیم بن یوشا جو کافر تھا کو تخت پر بیٹھایا تو بابل کے بخت نصر نے اسپر حملہ کردیا ، ہیکل کی بربادی اور بیت المقدس کی ویرانی ( اس وقت حضرت دانیال ،حضرت خانیا اور حضرت عزازیا اور حضرت مصائیل انببیا تھے ) حضرت ارمیا( بنی اسرائیل کو کفرو الحاد کی بنا پر بخت نصر کے ہاتھوں ہلاکت سے ڈرایا تھا )  نبی کی مصر ،بابل ،صور ،صید اور عمو ن کے علاقوں کی نبوت دی گی ٤٨ سال کے بعد انھیں اہل حجاز نے شہید کردیا تھا .بنی اسرائیل دوبارہ لوٹے یہاں تک کے طیطش نامی قیصر کے ہاتھوں کی ویرانی کا دوبارہ دور آیا اور جلوہ کبری  کا زمانہ .حضرت دانیال کی امارت ،حضرت ایلیا ،حضرت الیاس بن سین ( اسبا ط  عشرہ پرقحط کا عذاب ) حضرت الیسع بن اخطوب کی نبوت ،حضرت عاموص کو احاب کے بیٹا تخت نشیں  اسیا یا اخریا (جو سرکش اور بدآمن تھا بعل بت کی پوجا کرتا تھا )نے شہید کردیا ،دارا شاہ فارس کی حکومت ،کیرش بن کیکو( بن غلیم بن سام ) ، بیت المقدس کی تعمیر ، حضرت عزیز ،دارا کے مرنے سے حکومت فارس کا ختم ملک فارس پر بنی یو نان((سکندر ) اسکندریہ بن فیفلوس)  قابض ،سنکدر کا خواب حضرت دانیال کی  دارا کے خلاف فتح کی تعبیر ،توریت کا یونانی ترجمہ ،انطیوخوس  کا یہودیوں پر ظلم ،حضرت دانیال کو بخت نصر  کا دو شیروں کے ساتھ کنوے میں ڈالنا اور حضرت ارمیا پر وحی کے ذریعے  ملاقات ،

 طیطوش کا بیت المقدس پر حملہ اور قتل عام : ایک قول کے مطابق ایک کروڑ ایک لاکھ افراد قتل کے گئے ، اور ایک لاکھ قید جنہیں طیطوش راستے میں درندوں کو کھیلا تا جاتا تھا . ( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ١٦٥  )

حضرت عزیز علیہ سلام : (بن عدیا بن ایوب بن درزنا بن عری بن تقی بن اسبوع بن فخاص بن العاذربن ہارون بن عمران )

آپ کا زمانہ حضرت داود و سلیمان کے بعد اور حضرت یحییٰ زکریا سے پہلے کا ہے ، بنی اسرائیل کے زمانے میں کسی کو بھی تورات حفظ نہ تھی الله نے آپ کوتورات  الہام فرمائی تھی، حضرت عزیز کو الله کا سو سال کی موت سلانا ، آپ کا تورات کو از سر نو لکھوانا آپ کے معجزے جس بنا پر آپ کو بنی اسرائیل کا حضرت عزیز کو نعوذباللہ الله کا بیٹا کہنا ( توبہ ٣٠ ) ،   ( تاریخ ابن کثیر  حصہ دوم ، صفہ  ٥٠٧  )

حضرت زکریا علیہ سلام  ( بن لدن بن مسلم بن صدوق بن حشبان بن داود بن سلیمان )  :

بوڑھاپے میں یحییٰ کی بشارت ( مریم  ٢ ، انبیا ٨٩ تا ٩١ ) اور حضرت یحییٰ کا واقعیہ اوپر  گزر گیا . ، اس وقت انطیفس بن ہیرودس کی حکومت تھی فاسق نے علماء یہود اور حضرت یحی علیہ سلام  کودمشق میں شہید( بادشاہ اور ایک عورت کی محبت کے سلسلے آپ رکاوٹ تھے عورت نے بادشاہ سے حضرت یحی کا خون منگا تھا )  کیا تھا.

حضرت عیسیٰ علیہ سلام  :

ہیردوس کے زمانے سے پہلے حضرت مریم کے والد حضرت عمران علیہ سلام  عابد و زاہد  تھے، حنہ  بنت فاقود بن فیل بڑی عابد آپ کی بیوی تھی، اور انکی بہن ا یشاع حضرت زکریا بن یوحنا کی زوجیت میں تھیں .جن سے حضرت یحی علیہ سلام  پیدا ہوئے .( حضرت یحییٰ اور حضرت عیسی دونوں خالہ زاد بھی تھے، اور دونوں کا حمل اکھٹے ٹھہرا تھا )  پھر مریم علیہ سلام  کی ولادت،  حضرت زکریا حضرت مریم کا پھلوں کا  واقعیہ، حضرت عیسی کی بشارت   ( مریم 16 تا ٣٧، ال عمران ٤٢ تا ٥١  ) ،اسکے بعد حضرت  عیسی علیہ سلام  کی ولادت ( بیت اللحم ) کا واقعیہ ہے ( مریم ١٦ تا ٣٨ )  معجزات ( مریم ١١٠ )  ،انجیل کا نزول ،جس بستی میں حضرت عیسی علیہ سلام  کو ماننے والے تھے اسکو ناصرہ کہتے تھے وہا ں کے مومنوں کو نصاری (مددگار ) کہا جاتا تھا، ، اپنے حواریوں کو ٣٠ دن روزے کا حکم، عید یعنی آسمان سے دسترخوان کا اترنا اور منکر اور خیانت کرنے والوں کا بندر اور سور بننا  (ما ند ہ ١١٣ تا ١١٥ )  ، یہودی سرداروں کی بے دینی کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کے  قتل کرنے کے مشورے ،حضرت عیسیٰ کی بیت المقدس میں (فلا طش قیصر کے کمانڈر ) گرفتاری کرنے کی کوشش ، ایک نوجوان ( سرجس یا یودس بن کریا یوطا) حضرت عیسی علیہ سلام  کی شکل والے کو حضرت عیسیٰ علیہ سلام  سمجھ کر اٹھانا اور سولی چڑھانا اور کانٹے اسکے سر پر بطور اہانت رکھنا  اور خوش گمان خیال کیے بیٹھنا  اور الله کا اپنے پاس اٹھا لینا ( عمر ٢٤ یا ٣٤ )  ( ال عمران ٥٤، النسا ١٥٥ تا ١٥٩ ) ، حضرت عیسی علیہ سلام   کے اٹھا نے  جانے کے  پانچ سال بعد حضرت مریم تریپن سال کی عمر وفات کر گی . سنہ  ١٠٠ عہ آپ کے حوا ریوں نے قوانین شرعیہ بناے ، ثلثیت ، بدعات ، تناسخ اور پھر نصرانیوں میں تفرقے ( مریم ٣٧ )  ،اصحاب کہف کا واقعہ . ( تاریخ ابن خلدون جلد دوم صفہ ١٦٩   ) ( تاریخ ابن کثیر  حصہ دوم ، صفہ  ٥٦٢  )

تورات موسیٰ پر چھ رمضان ، زبور حضرت داود پر بارہ  رمضان کو نازل ہوئی ،زبور تورات کے چار سو بیاسی سال بعد نازل ہوئی تھی ، انجیل حضرت عیسیٰ   ابن مریم پر اٹھارہ رمضان کو نازل ہوئی جب آپ کی عمر ٣٠ سال تھی پھر آپ ٣٣ سال زمیں پر رہے اسکے بعد الله نے آپ کو آسمان پر اٹھالیا  اور انجیل زبور کے ایک ہزار پچاس سال بعد نازل ہوئی اور فرقان مجید قرآن حضور پر چوبیس رمضان کو نازل ہوا ،( تاریخ ابن کثیر  حصہ دوم ، صفہ  ٥٤٣   )

ذوالقرنین  اور یا جو ج  و ماجوج  ( مشرق و مغرب کے درمیان روۓ زمین کا ہر ہر حصہ مملکت میں تھا )   : سورہ کہف ٨٣-٩٨ )

نیک اور عادل  حکمران ، حضرت خضران کے وزیر تھے،  نام عبدللہ بن المضحا ک  بن معد یا مرزبان بن مرزبہ یا مصعب بن زی مرا ند یا ہرمس تھا ، قرآن میں ذوالقرنین کا ذکر یہ ہے کہ قریش مکہ نے یہودیوں سے کہا کے ہمیں ایسا سوال بتایں جو ھم امتحان اور آزمائش کے طور پر محمد سے کر سکے ، انہونے آپ ﷺ سے بوچھا تھا کی  جو زمین پر بہت پھرا  ہے  اور ان نوجوانوں کا نام بتاؤ جو اپنے گھروں سے نکلے لیکن انکا پتا نہیں کے انکے ساتھ کیا ہوا . اس کے جواب میں الله نے سورت کہف نازل کی تھی،

اور ایک ذوالقرنین بھی ہے جو مقدونی،یو نانی، مصری ہے مشهور شہر اسکندریہ کا بانی ، یہ حضرت عیسی علیہ سلام سے تقربنا تین سو سال پرانا ہے ، مشہور فلسفی ارسطا طا لیس  اس کا وزیر تھا ، اسی نے دارا بن دارا کو قتل کیا اور فارس پر قبضہ کیا تھا . یہ مشرک تھا ، اور دونوں کے بیچ دو ہزار سال کا فرق ہے . ( تاریخ ابن کثیر  حصہ دوم ، صفہ  ٥٧٠   )

اصحاب کہف : ( سورہ کہف ٩ تا ٢٦ )

مومن اور کافر کا واقعیہ ( سورہ کہف ٣٢ تا ٤٤ )

قصہ اصحاب الجنتہ ( باغ والے ) ( سورہ القلم ١٧ تا ٣٣ ) کفار قریش کا واقعہ ہے .

ایلہ والوں کا واقعہ ( اصحاب السبت )  ( سورہ اعراف ١٦٤ ) جس دن انکو شکار کرنے اور سب کام دھندوں پر پابندی لگائی گی تھی  مچھلیاں ہفتہ کے دن پکڑنا حرام تھی ، انکے ایسے حیلوں کی وجہ سے الله نے انکی پکڈ کرلی اور انکو  ذلیل بندر بنا دیا . ( تاریخ ابن کثیر  حصہ دوم ، صفہ  ٥٨٦  )

قصہ لقمان حکیم ( لقمان بن سدون یا لقمان بن ثاران)   : سوره لقمان  ١٢ تا ١٩

آپ ایلہ کے نوبہ کے یا مصر کے سوڈان ( حبشی اور نجار،بڑے ہونٹ والے  ) کے  رہنے والے تھے ،وہ ایک مرد صالح ، عبادت گزار اور حکمت عظیمہ کے ما لک تھے ،

قصہ اصحاب الا خدور( خندق والے )  : ( سورہ البروج ١ تا ١٠ )  تفصیل ذکر  سورہ البروج کی تفسیر میں موجود ہے .

حضرت آدم اور نوح کے درمیان ایک ہزار سال ( دس قرن اور ایک قرن سو سال ) کا زمانہ ہے ،یہ تمام نسلیں دین اسلام پر قائم تھی، حضرت موسیٰ بن عمران و  عیسیٰ ا بن مریم کے درمیان  ایک ہزار نو سو سال گزرے اور حضرت عیسیٰ   اور حضرت محمد صلم کے درمیان پانچ سو انہتر سال کا فصل ہے . ( طبقات ابن سعد حصہ اول صفہ ٦٣ )

 

No comments:

Post a Comment